پشاور —
پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ کے گورنر نے منگل کو صوبائی اسمبلی کی تحلیل کے اعلامیہ پر دستخط کر دیے۔ وزیراعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی نے پیر کی شب گورنر کو اسمبلی کی تحلیل کے لئے سمری بھجوائی تھی۔
گورنر شوکت اللہ نے وزیر اعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی کو ہدایت کی ہے کہ وہ نئے وزیر اعلیٰ کے حلف اٹھانے تک اپنے عہدے پر کام کرتے رہیں۔
تحلیل ہونے والی صوبائی اسمبلی میں قائد حزب اقتدار امیر حیدر خان ہوتی اور قائد حزب اختلاف اکرم درانی کے درمیان پہلے ہی سے نگران وزیر اعلیٰ کے نام پر اتفاق ہو چکا ہے اور حکام نے بتایا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق جج جسٹس طارق بدھ کی شام کو نگران وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔ اس کے بعد سات سے دس رکنی نگران کابینہ کے ارکان بھی حلف اٹھائیں گے۔
سبکدوش ہونے والے صوبائی وزیر اطلاعات میاں افتخارحسین نے منگل کو وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ صوبے میں امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لئے حکومت کی پالیسیوں پر عمل درآمد جاری رہے گا۔
’’حکومت کے جو اپنے مضبوط ادارے ہوتے ہیں یعنی پولیس پہلے سے موجود ہے فوج پہلے سے موجود ہے اس طریقے سے انتظامیہ پہلے سے موجود ہے حکومت کا پورا سسٹم موجود ہے تو امن مان کے حوالے سے جس طریقے سے ہم اپنی کارگزاری دکھا رہے تھے تو نگران حکومت بھی اس طریقے سے کارگزاری دکھا سکتی ہے بشرطیکہ کہ کمٹمنٹ ہو اور مجھے یقین ہے کہ یہ کمٹمنٹ ہر ایک بندے کی ہوگی کہ اپنی دھرتی کو محفوظ بنانے اور امن قائم کرے۔‘‘
ادھر طالبان شدد پسندوں نے اپنی ایک تازہ دھمکی میں لوگوں کو پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے انتخابی جلسوں سے دور رہنے کا انتباہ کیا ہے۔ اس پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے میاں افتخار حسین نے کہا کہ یہ قبل ازانتخابات دھاندلی کے مترادف ہے اور طالبان کا یہ بیان اپنی ہم خیال قوتوں کو کامیاب کرانے کی ایک سازش ہے۔
گورنر شوکت اللہ نے وزیر اعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی کو ہدایت کی ہے کہ وہ نئے وزیر اعلیٰ کے حلف اٹھانے تک اپنے عہدے پر کام کرتے رہیں۔
تحلیل ہونے والی صوبائی اسمبلی میں قائد حزب اقتدار امیر حیدر خان ہوتی اور قائد حزب اختلاف اکرم درانی کے درمیان پہلے ہی سے نگران وزیر اعلیٰ کے نام پر اتفاق ہو چکا ہے اور حکام نے بتایا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق جج جسٹس طارق بدھ کی شام کو نگران وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔ اس کے بعد سات سے دس رکنی نگران کابینہ کے ارکان بھی حلف اٹھائیں گے۔
سبکدوش ہونے والے صوبائی وزیر اطلاعات میاں افتخارحسین نے منگل کو وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ صوبے میں امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لئے حکومت کی پالیسیوں پر عمل درآمد جاری رہے گا۔
’’حکومت کے جو اپنے مضبوط ادارے ہوتے ہیں یعنی پولیس پہلے سے موجود ہے فوج پہلے سے موجود ہے اس طریقے سے انتظامیہ پہلے سے موجود ہے حکومت کا پورا سسٹم موجود ہے تو امن مان کے حوالے سے جس طریقے سے ہم اپنی کارگزاری دکھا رہے تھے تو نگران حکومت بھی اس طریقے سے کارگزاری دکھا سکتی ہے بشرطیکہ کہ کمٹمنٹ ہو اور مجھے یقین ہے کہ یہ کمٹمنٹ ہر ایک بندے کی ہوگی کہ اپنی دھرتی کو محفوظ بنانے اور امن قائم کرے۔‘‘
ادھر طالبان شدد پسندوں نے اپنی ایک تازہ دھمکی میں لوگوں کو پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے انتخابی جلسوں سے دور رہنے کا انتباہ کیا ہے۔ اس پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے میاں افتخار حسین نے کہا کہ یہ قبل ازانتخابات دھاندلی کے مترادف ہے اور طالبان کا یہ بیان اپنی ہم خیال قوتوں کو کامیاب کرانے کی ایک سازش ہے۔