صوبہ خیبر پختونخواہ میں شدت پسندی نے حالیہ برسوں میں جہاں معاشی، سماجی اور ثقافتی شعبوں کو بری طرح متاثر کیا وہیں تعلیمی گرمیاں بھی اس کے اثرات سے محفوظ نہیں ہیں۔
صوبائی سیکرٹری تعلیم مشتاق جدون نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ گزشتہ دو سالوں کے دوران شدت پسندوں نے پشاور کے مضافات کے علاوہ قبائلی علاقوں کے قریب واقع اضلاع میں 98 اسکولوں کو بم دھماکوں سے تباہ کیا ہے جن کی تعمیر نو انتظامیہ کے لیے ایک چیلنج ہے۔
’’پشاور ضلع کے جو دیہی علاقوں کے اسکول ہیں ان کو زیادہ ہدف بنایا جا رہا ہے، اس کے ساتھ ساتھ ہنگو، کوہاٹ، بنوں اور ٹانک میں شدت پسندی زیادہ ہے۔ تو وہ ہمارا حکومت کا مالیاتی و انتظامی بوجھ بھی بڑھا رہے ہیں، خاص طور پر لڑکیوں کے پرائمری اسکولوں کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہوتا ہے‘‘۔
مشتاق جدون کا کہنا ہے کہ سوات اور مالاکنڈ ڈویژن میں تین سال قبل طالبان کی آمد سے تعلیمی اداروں خاص طور پر لڑکیوں کے اسکولوں کو جو نقصانات پہنچے تھے ان کی بحالی کا کام تیزی سے جاری ہے۔
’’مالاکنڈ ڈویژن 460 اسکولوں کو جزوی نقصان پہنچا تھا جب کہ 180 تعلیمی ادارے مکمل طور پر تباہ ہوئے تھے۔ کلی طور پر تباہ ہونے والے اسکولوں میں سے 65 فیصد پر کام جاری ہے‘‘۔
سیکرٹری تعلیم نے بتایا کہ حکومت اپنے وسائل سے تباہ شدہ تعلیمی اداروں کی تعمیر نو میں مصروف ہے جب کہ تدریسی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے بعض علاقوں میں کرائے کے گھروں میں عارضی اسکول چلائے جا رہے ہیں۔
مشتاق جدون نے بتایا کہ صوبائی حکومت تعلیمی اداروں کی مکمل بحالی کے لیے بین الاقوامی امدادی اداروں سے بھی معاونت کے حصول کے لیے کوشاں ہے ۔ اُنھوں نے کہا کہ مالاکنڈ ڈویژن میں تباہ ہونے والے اسکولوں کی تعمیر نو کے لیے امریکہ کے ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی ’یو ایس ایڈ‘ کی معاونت بھی حاصل ہے جس نے مجموعی طور پر اسکولوں کی بحالی کے لیے اڑھائی کروڑ ڈالر کی فراہمی کا اعلان کر رکھا ہے۔