پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ میں حکومت نے 12 جنوری سے تعلیمی اداروں کو دوبارہ کھولنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن اس سے قبل سکیورٹی کے مزید سخت انتظامات بھی کیے گئے ہیں۔
16 دسمبر کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر طالبان کے مہلک حملے میں 133 بچوں سمیت 149 افراد کی ہلاکت کے بعد ملک بھر میں موسم سرما کی تعطیلات وقت سے پہلے کر دی گئیں اور بعد میں اُن میں توسیع بھی کی گئی۔
لیکن صوبہ خیبر پختونخواہ کی حکومت نے ایک اجلاس میں یہ فیصلہ کیا کہ تعلیمی اداروں کو دوبارہ کھولا جائے لیکن اس سے قبل اسکولوں اور کالجوں کو کچھ اضافی حفاظتی انتظامات کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔
خیبرپختونخواہ میں 28 ہزار سے زائد سرکاری جب کہ لگ بھگ آٹھ ہزار پرائیویٹ اسکول ہیں جن میں زیر تعلیم بچوں کی تعداد تقریباً 58 لاکھ ہے۔
صوبائی حکام کے مطابق تعلیمی اداروں کے مکمل سکیورٹی پلان کے تحت پولیس کو تمام اسکولوں کی فہرست فراہم کی گئی ہے جب کہ ان تعلیمی اداروں کی بیرونی دیواروں کو مناسب سطح تک بلند کرنے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔
صوبہ خیبر پختونخواہ کے وزیر تعلیم نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ اسکول جو قبائلی علاقوں کے قریب ہیں یا جہاں دہشت گردی کے حملوں کا خطرہ زیادہ ہے وہاں سکیورٹی کے انتظامات زیادہ سخت کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ جو پرائیویٹ اسکول ان حفاظتی ہدایات کے مطابق عمل درآمد نہیں کریں گے اُن کو کھولنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
’’ہم والدین سے بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ خود جا کر دیکھیں کہ سکیورٹی کے حالات ٹھیک ہیں یا نہیں ۔۔۔ ظاہر ہے ان کو فکر ہو گی۔ تو وہ لوگ مقامی انتظامیہ کو بتائیں کہ یہ مسئلہ ہے تاکہ اصلاح کی جا سکے اور اس طرح کے کافی اقدامات ہم نے کیے ہیں، اس لیے ہم سوچ رہے ہیں کہ بہتری آئے گی۔‘‘
صوبائی حکومت کے مطابق اسکولوں اور کالجوں میں کمیونٹی کی سطح پر پولیسنگ کا نظام متعارف کرایا جا رہا ہے اور یہ مقامی آبادیوں پر چھوڑا گیا ہے کہ اگر وہاں ایسے ریٹائرڈ ملازمین جن کے پاس اپنا اسلحہ ہو انھیں ملازمت پر رکھیں۔ ان کو سرکار کی طرف سے اعزازیہ دیا جائے گا جب کہ پرائیویٹ اسکولوں کے بسوں میں بھی مسلح گارڈ ہوں گے۔