افغان سرحد سے منسلک قبائلی علاقے کرم ایجنسی سے پشاور آنے والے اہل تشیع کی گاڑیوں کے قافلوں پر دوروز قبل ضلع ہنگو میں ہلاکت خیز حملے اور اس میں اغواء کیے جانے والے افراد کی بازیابی کے لیے علاقے میں سکیورٹی فورسز نے کارروائی شروع کررکھی ہے۔ جبکہ اس سلسلے میں انتظامیہ کو مقامی قبائل کے قائدین کا تعاون بھی حاصل ہے اور متعدد مشتبہ افراد کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔
کوہاٹ کے کمشنر خالد خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ اغواء کاراب تک 20 افراد کو رہا کر چکے ہیں لیکن لگ بھگ ایک درجن لوگ اب بھی اُن کے قبضے میں ہیں۔حملہ آواروں نے جمعہ کو ہنگو کے قریب کی گئی اس کارروائی میں خودکار ہتھیاروں سے فائرنگ کر کے کم از کم 13 افراد کو ہلاک بھی کردیا تھا۔
کرم ایجنسی کا قبائلی علاقہ پچھلے کئی سالوں سے سنی شعیہ فرقہ وارانہ فساد کی لیپٹ میں رہا ہے اس کے صدر مقام پاڑہ چنار کوپشاور سے ملانے والی مرکزی شاہراہ پر تشدد کے ایسے ہی واقعات کے باعث تقریبا ً تین سال تک اس سڑک پر گاڑیوں کی آمد ورفت بند رہی۔ تاہم رواں سال جنوری میں ایک متحارب گروہوں کے مابین ایک امن معاہدے کے بعد اس شاہراہ کو آمد ورفت کے لیے دوبارہ کھولا گیا تھا۔ لیکن تب سے آج تک اس سڑک پر سے گزرنے والے قافلوں پر کئی حملے ہوچکے ہیں اور ان کا زیادہ تر ہدف شعیہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد بنے ہیں۔ اہل تشیع کی گاڑیوں پرتین مختلف حملوں میں کم ازکم 29 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو چکے ہیں۔
کمشنر کوہاٹ کا کہنا ہے کہ بعض شدت پسند عناصر امن معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔ ”معاہدہ بدستور قائم ہے ، یہ شرپسند لوگ ہیں “یہ صرف معاہدے کو توڑنے کے لیے کر رہے ہیں، ان کو اپنے عزائم میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔