افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے کرم ایجنسی کے ایک سرحدی گاؤں کے قریب پیر کی شب مبینہ امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 20 ہو گئی ہے۔
کرم ایجنسی سے ملنے والی ابتدائی اطلاعات میں ڈرون حملے میں ہلاکتوں کی تعداد پانچ بتائی گئی تھی۔
جس علاقے میں یہ میزائل حملہ کیا گیا وہاں تک میڈیا کے نمائندوں کی رسائی نہیں اس لیے آزاد ذرائع سے ان ہلاکتوں اور درست مقام کی تصدیق ممکن نہیں۔
کرم ایجنسی کے مرکزی قصبے پاڑہ چنار میں ذرائع نے بتایا کہ غوز گڑھی نامی علاقے کے گاؤں پشخرام میں عسکریت پسندوں کے ایک مرکز پر مبینہ امریکی ڈرون طیاروں سے یکے بعد دیگرے کئی میزائل فائر کیے گئے۔
میزائل حملوں کے نتیجے میں عسکریت پسندوں کا مرکز تباہ ہو گیا اورمیزائل لگنے کے بعد مرکز کے کئی حصوں میں آگ بھڑک اُٹھی تھی۔
ذرائع کے مطابق سرحدی گاوں پشخرام میں ڈرون طیاروں سے داغے گئے میزائلوں کا ہدف پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند تھے جب کہ بعض اطلاعات کے مطابق اس میزائل حملے میں حقانی نیٹ ورک سے وابستہ جنگجوؤں کو نشانہ بنایا گیا۔
کرم ایجنسی کی انتظامی عہدیداروں نے سرحدی علاقے میں مبینہ امریکی ڈرون حملوں کی تصدیق کی ہے مگر وہ حملوں کے نتیجے میں ہونے والے جانی نقصان کے بارے میں معلومات فراہم کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔
بعض حکام کا کہنا ہے کہ جس مقام کو نشانہ بنایا گیا اس مرکز کا کچھ حصہ افغانستان جب کہ بقیہ پاکستانی حدود میں آتا ہے۔
دریں کرم ایجنسی سے ملنے والی تازہ اطلاعات کے اطلاعات کے مطابق پاک افغان سرحد کے قریب منگل کو بھی شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو مشتبہ ڈرون طیاروں سے نشانہ بنایا گیا جن میں متعدد مبینہ عسکریت پسند مارے گئے۔
تاہم قبائلی حکام کی طرف سے ان حملوں کے مقام کی تصدیق نہیں کی گئی۔
اس سے قبل کرم ایجنسی کے سرحدی علاقے میں 15 ستمبر 2017 کو ہونے والے ڈرون حملے میں کم از کم چھ مبینہ عسکریت پسند مارے گئے تھے۔
پاکستانی وزارت خارجہ کی طرف سے اس ڈرون حملے کے بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے، پاکستان امریکی ڈرون حملوں کو اپنی آزادی اور خودمختاری کے منافی قرار دیتا ہے جب کہ امریکی حکام ڈرون حملوں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں موثر ہتھیار سمجھتے ہیں۔
گزشتہ اختتام ہفتہ ہی کرم ایجنسی میں ایک بم دھماکے میں پاکستانی فوج کے ایک کپیٹن سمیت چار اہلکار مارے گئے تھے جب کہ اس سے قبل اسی علاقے میں پاکستانی فوج نے کارروائی کر کے امریکی خاتون کیٹلن کولمین اور کینیڈا سے تعلق رکھنے والے اُن کے شوہر جوشوا بوئیل کو تین بچوں سمیت بازیاب کروایا تھا۔
اس خاندان کو 2012ء میں افغانستان سے اغوا کیا گیا تھا۔ شدت پسند اُنھیں افغانستان سے پاکستان منتقل کر رہے تھے کہ امریکہ کی طرف سے فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پاکستانی فوج نے کارروائی کرتے ہوئے اُنھیں بازیاب کروایا تھا۔