اسلام آباد —
پاکستان میں سیاست دانوں کے خلاف بدعنوانی، غیر قانونی اور خفیہ طور پر اثاثوں میں اضافے کے الزامات ہمیشہ موضوع بحث رہے ہیں جبکہ حالیہ سالوں میں مقامی ذرائع ابلاغ اور کچھ غیر سرکاری تنظیموں کی تحقیقات سے متعلق مسلسل خبریں سامنے آئیں کہ عوامی نمائندے اپنے اثاثوں کو چھپاتے یا ان سے متعلق دروغ گوئی سے کام لیتے ہیں۔
بظاہر اسی تناظر میں الیکشن کمیشن نے پہلی مرتبہ ارکین پارلیمان اور سایسی جماعتوں کی طرف سے فراہم کردہ ان کے اثاثوں کی تفصیلات اپنی ویب سایٹ پر جاری کی ہیں۔
ان تفصیلات کے مطابق وزیراعظم نواز شریف کے اثاثوں کی کل مالیت تقریباً دو ارب روپے ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ نے اپنے اثاثوں کی مالیت بالترتیب تین اور دو کروڑ سے کم بتائی ہیں۔
وزیراعظم نے اپنے بیان حلفی میں کہا ہے کہ ان کے پاس نقد رقم صرف 23 لاکھ کے قریب ہے جبکہ معروف سابق کرکٹر نے بتایا کہ ان کے پاس زیادہ تر اراضی یا مکانات خاندانی یا تحفے میں ملے ہیں۔
مبصرین و ماہرین کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کے یہ اقدام نظام میں بہتری اور شفافیت لانے کی جانب پہلا قدم قرار ہے تاہم بعض کا کہنا تھا کہ ان اثاثوں کی تفصیلات کی جانچ پڑتال سے متعلق مزید قانون سازی کی جانی چاہیے۔
بدعنوانی سے متعلق تحقیقات کرنے والی بین الاقوامی تنظیم ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے پاکستان میں مشیر عادل گیلانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ٹیکس جمع کرنے والا ادارہ فیڈرل بیورو آف ریوینیو (ایف بی آر) اور قومی احتساب بیورو (نیب) کی عدم دلچسپی کی وجہ سے غلط اثاثوں پر کارروائی نہیں ہوپائی۔
’’ایف بی آر اب چیک کرے کہ یہ تفصیلات آگئی ہیں اور اگر کسی نے اس پر ٹیکس ادا نہیں کیا تو اس سے پوچھ گچھ کرے۔ تمام پارلیمنٹیرین ہیں اس لیے سرکاری ملازم ان سے ڈرتے ہیں۔ اگر ان سے ٹیکس نہیں وصول کرتے یا غیر ضروری طور پر ان فائدہ دیتے ہیں یا ان کو نہیں پکڑ رہے تو ایف بی آر اور نیب والے جرم کررہے ہیں۔‘‘
پاکستان کو سخت اقتصادی مشکلات کا سامنا ہے اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے اور اقتصادی ماہرین ملک کی معیشت کی بحالی کے لیے ٹیکس دہنگان کی تعداد میں اضافے کو ناگزیر گردانتے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے ترجمان خورشید عالم خان کا کہنا ہے کہ کمیشن کے دائرہ اختیار میں قانونی اثاثوں کی چھان بین شامل نہیں۔
’’اس کا مرکزی مقصد ہے کہ عوام کے سامنے ان کا اصل چہرہ ہو کہ ان کا نمائندہ پہلی مرتبہ آیا تو اس کے پاس کتنے اثاثے تھے اور سال گزرنے کے بعد اس کا کیا اسٹیٹس ہے۔‘‘
پاکستانی قانون کے تحت الیکشن کمیشن کو غلط اثاثوں کی تفصیلات فراہم کرنے پر کوئی بھی شخص عدالت سے رجوع کر سکتا ہے اور جرم ثابت ہونے پر اس قانون ساز کی رکنیت بھی منسوخ ہو سکتی ہے۔
سابق وفاقی وزیر قانون احمر بلال صوفی کہتے ہیں کہ اثاثوں کی جانچ پڑتال سے متعلق قانون سازی ضروری ہے مگر ملک کی کمزور معیشت کے پیش نظر کچھ تاخیر بہتر ہوگی۔
’’میرے خیال میں آپ کے قانون نافذ کرنے والے ادارے خصوصاً نیب کو اسٹریٹیجک رسٹرین کا مظاہرہ کرنا ہوگا تاکہ سرکاری ملازمین اور کاروباری لوگوں کا کچھ اعتماد بحال ہو۔ میرے خیال میں انہیں کسی کے خلاف بدعنوانی سے متعلق پائے جانے والے تاثر کی تحقیقات نہیں بلکہ اصل بدعنوانی کی حرکت کی تحقیقات کرنا چاہیے۔‘‘
ورلڈ بنک نے اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں کاروبار شروع کرنا دیگر علاقائی ممالک کی نسبت اب بھی بہت مشکل ہے تاہم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق گزشتہ سال کے مقابلے میں رواں سال پاکستان میں بدعنوانی میں کمی آئی ہے۔
بظاہر اسی تناظر میں الیکشن کمیشن نے پہلی مرتبہ ارکین پارلیمان اور سایسی جماعتوں کی طرف سے فراہم کردہ ان کے اثاثوں کی تفصیلات اپنی ویب سایٹ پر جاری کی ہیں۔
ان تفصیلات کے مطابق وزیراعظم نواز شریف کے اثاثوں کی کل مالیت تقریباً دو ارب روپے ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ نے اپنے اثاثوں کی مالیت بالترتیب تین اور دو کروڑ سے کم بتائی ہیں۔
وزیراعظم نے اپنے بیان حلفی میں کہا ہے کہ ان کے پاس نقد رقم صرف 23 لاکھ کے قریب ہے جبکہ معروف سابق کرکٹر نے بتایا کہ ان کے پاس زیادہ تر اراضی یا مکانات خاندانی یا تحفے میں ملے ہیں۔
مبصرین و ماہرین کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کے یہ اقدام نظام میں بہتری اور شفافیت لانے کی جانب پہلا قدم قرار ہے تاہم بعض کا کہنا تھا کہ ان اثاثوں کی تفصیلات کی جانچ پڑتال سے متعلق مزید قانون سازی کی جانی چاہیے۔
بدعنوانی سے متعلق تحقیقات کرنے والی بین الاقوامی تنظیم ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے پاکستان میں مشیر عادل گیلانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ٹیکس جمع کرنے والا ادارہ فیڈرل بیورو آف ریوینیو (ایف بی آر) اور قومی احتساب بیورو (نیب) کی عدم دلچسپی کی وجہ سے غلط اثاثوں پر کارروائی نہیں ہوپائی۔
’’ایف بی آر اب چیک کرے کہ یہ تفصیلات آگئی ہیں اور اگر کسی نے اس پر ٹیکس ادا نہیں کیا تو اس سے پوچھ گچھ کرے۔ تمام پارلیمنٹیرین ہیں اس لیے سرکاری ملازم ان سے ڈرتے ہیں۔ اگر ان سے ٹیکس نہیں وصول کرتے یا غیر ضروری طور پر ان فائدہ دیتے ہیں یا ان کو نہیں پکڑ رہے تو ایف بی آر اور نیب والے جرم کررہے ہیں۔‘‘
پاکستان کو سخت اقتصادی مشکلات کا سامنا ہے اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے اور اقتصادی ماہرین ملک کی معیشت کی بحالی کے لیے ٹیکس دہنگان کی تعداد میں اضافے کو ناگزیر گردانتے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے ترجمان خورشید عالم خان کا کہنا ہے کہ کمیشن کے دائرہ اختیار میں قانونی اثاثوں کی چھان بین شامل نہیں۔
’’اس کا مرکزی مقصد ہے کہ عوام کے سامنے ان کا اصل چہرہ ہو کہ ان کا نمائندہ پہلی مرتبہ آیا تو اس کے پاس کتنے اثاثے تھے اور سال گزرنے کے بعد اس کا کیا اسٹیٹس ہے۔‘‘
پاکستانی قانون کے تحت الیکشن کمیشن کو غلط اثاثوں کی تفصیلات فراہم کرنے پر کوئی بھی شخص عدالت سے رجوع کر سکتا ہے اور جرم ثابت ہونے پر اس قانون ساز کی رکنیت بھی منسوخ ہو سکتی ہے۔
سابق وفاقی وزیر قانون احمر بلال صوفی کہتے ہیں کہ اثاثوں کی جانچ پڑتال سے متعلق قانون سازی ضروری ہے مگر ملک کی کمزور معیشت کے پیش نظر کچھ تاخیر بہتر ہوگی۔
’’میرے خیال میں آپ کے قانون نافذ کرنے والے ادارے خصوصاً نیب کو اسٹریٹیجک رسٹرین کا مظاہرہ کرنا ہوگا تاکہ سرکاری ملازمین اور کاروباری لوگوں کا کچھ اعتماد بحال ہو۔ میرے خیال میں انہیں کسی کے خلاف بدعنوانی سے متعلق پائے جانے والے تاثر کی تحقیقات نہیں بلکہ اصل بدعنوانی کی حرکت کی تحقیقات کرنا چاہیے۔‘‘
ورلڈ بنک نے اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں کاروبار شروع کرنا دیگر علاقائی ممالک کی نسبت اب بھی بہت مشکل ہے تاہم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق گزشتہ سال کے مقابلے میں رواں سال پاکستان میں بدعنوانی میں کمی آئی ہے۔