اسلام آباد —
تحریک منہاج القرآن کے سربراہ طاہر القادری نے کہا ہےکہ وہ اور ان کا مارچ کسی بھی غیر جمہوری طریقے پر یقین نہیں رکھتا اور وہ اسلام آباد میں ایوانوں پر قبضہ کرنے کے لیے نہیں آئے۔
منگل کی دوپہر پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد کے قریب ڈی چوک کے مقام پر لانگ مارچ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے طاہر القادری نے کہا کہ وہ صدر آصف علی زرداری سمیت کسی بھی سیاسی جماعت یا ان کے قائدین کے خلاف نہیں ہیں بلکہ ان کے بقول وہ اس فرسودہ نظام کے دشمن ہیں۔
قبل ازیں لاہور سے 36 گھنٹوں کی مسافت کے بعد منگل کی رات اسلام آباد پہنچنے کے بعد طاہر القادری نے اپنے خطاب میں قومی اسمبلی سمیت تمام صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کے لیے حکومت کو صبح 11 بجے تک کی مہلت دی تھی۔
منگل کی صبح لانگ مارچ کے شرکا نے جلسے کی مقرر کردہ جگہ سے آگے پارلیمنٹ کی طرف بڑھنے کی کوشش کی جس دوران پولیس اور مظاہرین میں جھڑپ بھی ہوئی۔ تاہم وفاقی وزیر داخلہ کی ہدایت پر ان لوگوں کو ڈی چوک تک جانے کی اجازت دے دی گئی۔
طاہر القادری نے مقررہ وقت سے تاخیر سے شروع ہونے والے اپنے خطاب کے آغاز میں کہا کہ وہ اپنے مطالبات پر مبنی سات نکاتی ایجنڈا پیش کر رہے ہیں جسے انھوں نے ’’اسلام آباد اعلامیے‘‘ کا نام دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اسمبلیوں کی تحلیل ان کے ایجنڈے کا آخری نکتہ ہے۔ اپنی تقریر میں ایک بار پھر انھوں نے حکومتی عہدیداروں اور ان کے بقول بدعنوان سیاست دانوں کو شدید ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ ملک میں صرف عدلیہ اور فوج کے ادارے ہی اپنا فرض نبھا رہے ہیں۔
اپنی تقریر کے دوران متعدد بار مذہبی واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے حامیوں کو اپنے مطالبے پر ڈٹے رہنے کی تلقین کرتے ہوئے طاہر القادری گلو گیر ہو گئے۔ ’’ میں یہاں اختیار لینے نہیں بلکہ آپ کو اختیار دلانے آیا ہوں۔۔۔ یاد رکھو تم میں سے کوئی شخص اسلام آباد سے ایسے ہی واپس چلا گیا تو اس سے بڑا ظلم اور کوئی نہیں ہوگا۔‘‘
طاہر القادری کا خطاب ایک گھنٹہ سے زائد وقت تک جاری تھا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو رینٹل پاور کیس میں گرفتار کرنے کے حکم کی خبر آتے ہوئے انھوں نے اپنا خطاب ختم کرتے ہوئے کہا کہ بقیہ ’’خطاب بدھ کو کریں گے۔‘‘ انھوں نے اپنے حامیوں کو مطالبات کی منظوری تک اسلام آباد میں ہی رہنے کی ہدایت کی۔
وزیراعظم اشرف کی گرفتاری کے عدالتی حکم کی اطلاع پر دھرنے میں شریک ہزاروں افراد نے عدلیہ اور پاکستان کے حق میں پرجوش نعرے لگائے۔
جب اُن کا خطاب جاری تھا تو اس دوران وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف سمیت حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں سے ٹیلی فون پر رابطہ کر کے ملک کی سیاسی صورت حال پر مشاورت کی۔
سرکاری بیان کے مطابق تمام سیاسی قائدین نے ملک میں جمہوریت کے دفاع کے عزم کو دہراتے ہوئے کہا کہ جمہوری عمل کو پٹڑی سے نہیں اترنے دیا جائے گا۔
وفاقی دارالحکومت میں سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے ہیں جب کہ پارلیمنٹ، اہم سرکاری عمارتوں اور غیر ملکی سفارت خانوں پر مشتمل ریڈ زون کے علاقے میں پولیس اور رینجرز کے مزید اضافی دستے بھی تعینات کرنے کے علاوہ ان علاقوں کی مسلسل فضائی نگرانی بھی کی جا رہی ہے۔
بعض سیاسی مبصرین نے بھی طاہر القادری کے مطالبات کو جمہوریت مخالف اور ’’دھونس‘‘ سے تعبیر کرتے ہوئے ناقابل فہم قرار دیا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے پیر کو رات دیر گئے ایک پریس کانفرنس میں طاہر القادری کے مطالبات کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت ایسے کسی مطالبے کو تسلیم نہیں کرے گی۔
منگل کی دوپہر پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد کے قریب ڈی چوک کے مقام پر لانگ مارچ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے طاہر القادری نے کہا کہ وہ صدر آصف علی زرداری سمیت کسی بھی سیاسی جماعت یا ان کے قائدین کے خلاف نہیں ہیں بلکہ ان کے بقول وہ اس فرسودہ نظام کے دشمن ہیں۔
قبل ازیں لاہور سے 36 گھنٹوں کی مسافت کے بعد منگل کی رات اسلام آباد پہنچنے کے بعد طاہر القادری نے اپنے خطاب میں قومی اسمبلی سمیت تمام صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کے لیے حکومت کو صبح 11 بجے تک کی مہلت دی تھی۔
منگل کی صبح لانگ مارچ کے شرکا نے جلسے کی مقرر کردہ جگہ سے آگے پارلیمنٹ کی طرف بڑھنے کی کوشش کی جس دوران پولیس اور مظاہرین میں جھڑپ بھی ہوئی۔ تاہم وفاقی وزیر داخلہ کی ہدایت پر ان لوگوں کو ڈی چوک تک جانے کی اجازت دے دی گئی۔
طاہر القادری نے مقررہ وقت سے تاخیر سے شروع ہونے والے اپنے خطاب کے آغاز میں کہا کہ وہ اپنے مطالبات پر مبنی سات نکاتی ایجنڈا پیش کر رہے ہیں جسے انھوں نے ’’اسلام آباد اعلامیے‘‘ کا نام دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اسمبلیوں کی تحلیل ان کے ایجنڈے کا آخری نکتہ ہے۔ اپنی تقریر میں ایک بار پھر انھوں نے حکومتی عہدیداروں اور ان کے بقول بدعنوان سیاست دانوں کو شدید ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ ملک میں صرف عدلیہ اور فوج کے ادارے ہی اپنا فرض نبھا رہے ہیں۔
اپنی تقریر کے دوران متعدد بار مذہبی واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے حامیوں کو اپنے مطالبے پر ڈٹے رہنے کی تلقین کرتے ہوئے طاہر القادری گلو گیر ہو گئے۔ ’’ میں یہاں اختیار لینے نہیں بلکہ آپ کو اختیار دلانے آیا ہوں۔۔۔ یاد رکھو تم میں سے کوئی شخص اسلام آباد سے ایسے ہی واپس چلا گیا تو اس سے بڑا ظلم اور کوئی نہیں ہوگا۔‘‘
طاہر القادری کا خطاب ایک گھنٹہ سے زائد وقت تک جاری تھا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو رینٹل پاور کیس میں گرفتار کرنے کے حکم کی خبر آتے ہوئے انھوں نے اپنا خطاب ختم کرتے ہوئے کہا کہ بقیہ ’’خطاب بدھ کو کریں گے۔‘‘ انھوں نے اپنے حامیوں کو مطالبات کی منظوری تک اسلام آباد میں ہی رہنے کی ہدایت کی۔
وزیراعظم اشرف کی گرفتاری کے عدالتی حکم کی اطلاع پر دھرنے میں شریک ہزاروں افراد نے عدلیہ اور پاکستان کے حق میں پرجوش نعرے لگائے۔
جب اُن کا خطاب جاری تھا تو اس دوران وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف سمیت حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں سے ٹیلی فون پر رابطہ کر کے ملک کی سیاسی صورت حال پر مشاورت کی۔
سرکاری بیان کے مطابق تمام سیاسی قائدین نے ملک میں جمہوریت کے دفاع کے عزم کو دہراتے ہوئے کہا کہ جمہوری عمل کو پٹڑی سے نہیں اترنے دیا جائے گا۔
وفاقی دارالحکومت میں سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے ہیں جب کہ پارلیمنٹ، اہم سرکاری عمارتوں اور غیر ملکی سفارت خانوں پر مشتمل ریڈ زون کے علاقے میں پولیس اور رینجرز کے مزید اضافی دستے بھی تعینات کرنے کے علاوہ ان علاقوں کی مسلسل فضائی نگرانی بھی کی جا رہی ہے۔
بعض سیاسی مبصرین نے بھی طاہر القادری کے مطالبات کو جمہوریت مخالف اور ’’دھونس‘‘ سے تعبیر کرتے ہوئے ناقابل فہم قرار دیا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے پیر کو رات دیر گئے ایک پریس کانفرنس میں طاہر القادری کے مطالبات کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت ایسے کسی مطالبے کو تسلیم نہیں کرے گی۔