سٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق گورنر، ڈاکٹر عشرت حسین نے کہا ہے کہ پاکستانی معیشت کی غیر تسلی بخش کارکردگی کی وجہ ملک میں طویل عرصے تک جاری رہنے والی دہشت گردی، بیرونی امداد میں کمی، فوجی مداخلت اور دنیا بھر میں موجود معاشی صورت حال ہے۔ تاہم، پاکستان کی معاشی زبوں حالی محض ان وجوہات کے نتیجے میں نہیں ہوئی، بلکہ اس کی حقیقی وجہ گورنینس کے سول اداروں کی بتدریج کمزوری ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ پاکستانی معیشت اقتصادی اور سماجی اعشاریوں کے مطابق 1990 تک دنیا کی دس تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشتوں میں شمار ہوتی تھی۔ لیکن اُس کے بعد تنزلی کا عمل شروع ہوگیا۔ یوں یہ معلوم کرنا اہم ہے کہ اس اقتصادی تنزلی کی اصل وجہ کیا ہے۔
ڈاکٹر عشرت حسین نے ان وجوہات کا تفصیلی ذکر اپنی نئی کتاب ’گورننگ دی اَن گورنیبل: جمہوری حکمرانی کیلئے انسٹی ٹیوشنل ریفارم‘ میں کیا ہے۔
اُنہوں نے کتاب میں لکھا ہے کہ پاکستان میں ایک بڑا مسئلہ کمزور گورنینس رہا ہے۔ لیکن، اس حوالے سے یہ نہیں سمجھنا چاہئیے کہ گورنینس ہمیشہ ہی خراب رہے گی۔ اگر چند اہم معاشی اداروں میں موزوں اصلاحات کر لی جائیں تو معیشت کو دوبارہ فعال بنایا جا سکتا ہے۔
کتاب میں ڈاکٹر عشرت حسین نے 1947 سے 1990 کے دوران بڑے چیلنجوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ سب سے بڑا چیلنج بانی پاکستان محمد علی جناح کی وقت سے پہلے رحلت ہے جس کا عمومی طور پر پاکستان میں منفی اثر ہوا۔ پاکستان کا اولین آئین 1956 تک تیار نہ ہو سکا۔ پاکستانی اقتصادی ترقی میں درپیش دیگر بڑی رکاوٹوں میں مارشل لاء کے ادوار اور 1965 کی بھارت کے ساتھ جنگ شامل ہیں جن کا شدید دباؤ اس نوزائدہ ملک کے نجی شعبے پر پڑا۔ اس کے علاوہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی، 1970 کی دہائی میں تیل کا بحران اور پھر افغانستان میں جنگ ملک میں معاشی عدم استحکام کا باعث بنے۔ تاہم، پاکستانی معیشت پھر بھی خاصی مضبوط رہی۔ لیکن، پھر 1990 کی دہائی میں عدم استحکام بڑھتا چلا گیا۔
ڈاکٹر عشرت حسین کہتے ہیں کہ ضیاءالحق اور اُن کی پالیسیوں نے ایوب خان کے دور میں ہونے والی اقتصادی ترقی کے اثرات کو یکسر زائل کر دیا۔ اُن کے دور میں کلاشنیکوف کے کلچر اور منشیات کی تجارت کو فروغ ملا جس کے نتیجے میں ملک بھر میں نسلی اور فرقہ پرستی کی بنیاد پر تشدد بڑھنے لگا اور ایک متوازی غیر قانونی معیشت وجود میں آئی جس میں ہتھیاروں کی سمگلنگ اور جہادی گروپوں کی حوصلہ افزائی ہوئی۔
موجودہ تناظر میں پاکستان کے معاشی مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر عشرت حسین لکھتے ہیں کہ بڑی آبادی کے ملک پاکستان میں جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور فوج پر اُٹھنے والے اخراجات ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہوئے۔ وہ کہتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بیرون ملک سے مالی سرمائے کی پاکستان منتقلی ایوب خان کے دور کی نسبت زیادہ رہی۔ اُس دور میں مشرق وسطیٰ کے ممالک سے پاکستان کے تعلقات اچھے تھے اور ترقیاتی فنڈز قرضوں کے بجائے گرانٹ کی شکل میں آتے رہے۔ تاہم، 1990 کی دہائی میں قومی سرمائے کے ایک بڑے حصے کو بیرونی قرضوں کی ادائیگی کیلئے استعمال کیا جانے لگا۔
1990 سے 2008 کے دوران دنیا بھر کے ترقی پزیر ملکوں میں اقتصادی ترقی کی رفتار میں تیزی دیکھی گئی۔ بیشتر ممالک میں فی کس آمدنی میں 70 فیصد اضافہ ہوا۔ بھارت اور بنگلہ دیش نے اس مدت کے دوران عالمی منڈی میں زیادہ شیئر حاصل کیا۔ لیکن، پاکستان اقتصادی ترقی میں پیچھے رہ گیا اور انحطاط کی یہ کیفیت اب تک جاری ہے۔
ڈاکٹر عشرت حسین نے کہا کہ 2001 سے 2003 تک پاکستانی آبادی کا 42 فیصد 4 سے 10 ڈالر فی کس روزانہ خرچ کر رہا تھا اور یوں یہ لوگ پاکستان کے متوسط طبقے میں شامل ہو گئے جو ایک مثبت بات ہے۔ لیکن حکومت کی طرف سے ٹیکسوں کی آمدنی بدستور کم رہی اور متوسط طبقے کے فروغ کے باوجود معیشت میں بہتری پیدا نہ ہو سکی۔
کتاب میں وہ مزید بتاتے ہیں کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان میں مدرسوں کی تعداد بہت زیادہ بڑھنے سے تشدد اور بدامنی میں اضافہ ہوا۔ ریاست سرکاری سطح پر نئے سکول تعمیر کرنے اور نجی سکولوں کو فروغ دینےکے بجائے مدرسوں پر انحصار کرنے لگی۔
لیکن پاکستان کا اصل مسئلہ ہر شعبے میں احتساب کا فقدان رہا۔ ایماندار افسر قومی احتساب بیورو، وفاقی تحقیقاتی ادارے (FIA)، میڈیا اور پارلیمانی کمیٹیوں سے خوفزدہ ہونے کے باعث اپنا کام بلا خوف اور مناسب انداز میں نہ کر پائے جبکہ بدعنوان اہلکار بہت پیسہ بناتے رہے۔ یوں پاکستان کیلئے احتساب کے ایک ایسے غیر جانبدار ادارے کی اشد ضرورت ہے جو اصولوں کے مطابق کام کرے اور اپنی کارکردگی کیلئے مکمل طور پر جوابدہ ہو۔
ڈاکٹر عشرت حسین کے مطابق، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر ادارے میں بہترین لوگوں کا تقرر کیا جائے اور اُنہیں ادارے کو بہترین انداز میں چلانے کیلئے مکمل اختیار دیا جائے۔ تاہم، وہ افراد اپنی کارکردگی کیلئے مکمل طور پر جوابدہ بھی ہوں۔
عام شہریوں کو بھی اپنے فیصلے خود کرنے کا اختیار دیا جانا چاہئیے۔ الیکشن کمشن آزاد اور خود مختار ہو اور اعلیٰ ملازمتوں کی بھرتی کرنے والے ادارے پبلک سروس کمشن میں ایسے افراد کا تقرر کیا جائے جن کی قابلیت اور ایمانداری میں کوئی شک و شبہ نہ ہو۔
یوں ڈاکٹر عشرت حسین کا خیال ہے کہ پاکستان کا دیرینہ مسئلہ ایسے اداروں کی تشکیل ہے جو فعال اور قابل مواخذہ ہوں اور بہتر گورنینس میں مددگار ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ خدمات تک عام لوگوں کی رسائی ہو۔ لیکن ملک میں رواج پانے والی سیاست نےتوجہ ملک کے اصل مسائل سے ہٹا دی ہے۔ یوں گورنینس کو بہتر بناتے ہوئے ترجیحات کا ازسر نو تعین کرنا ہوگا۔