اسلام آباد —
پاکستان نے کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے شاہی خاندان نے ایک ائر ایمبولینس اسلام آباد بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ طالبان کے حملے میں زخمی ہونے والی 14 سالہ ملالہ یوسف زئی کو ہنگامی طور پر علاج کے لیے بیرون ملک بھیجنے کی ضرورت پڑے تو اس سہولت کا استعمال کیا جا سکے۔
امارات میں پاکستانی سفیر جمیل احمد نے اتوار کو نجی ٹی وی چینلز کو بتایا کہ جہاز کے عملے اور اُن کے ہمراہ سفر کرنے والے چھ ڈاکٹروں کو ویزے جاری کیے جا رہے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ دوبئی میں اور ابوظہبی کے تین اسپتالوں میں ملالہ کے علاج کے انتظامات کر لیے گئے ہیں۔
ملالہ راولپنڈی کے ایک فوجی اسپتال میں زیر علاج ہے جہاں فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے اتوار کو ایک بیان میں کہا ہے کہ اُسے بیرون ملک بھیجنے کے بارے میں ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔
اُنھوں نے ملالہ کی حالت کو ’’تسلی بخش‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں بتدریج بہتری آرہی ہے، اور امارات سے ائر ایمبولینس کی آمد کسی ہنگامی حالت سے نمٹنے کی منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔
فوج کے ترجمان نے ہفتہ کو راولپنڈی میں صحافیوں کو بتایا تھا کہ ملالہ کے بازو اور ٹانگوں نے حرکت شروع کردی ہے، جو ایک مثبت پیش رفت ہے۔ مگر اُنھوں نے کہا کہ وہ بدستور بے ہوشی کی حالت اور ’وینٹیلیٹر‘ یا مصنوعی نظام تنفس پر ہے۔
’’یہ سر میں شدید چوٹ کا معاملہ ہے جس میں بہتری کی رفتار بہت سست ہوتی ہے۔‘‘
ملالہ پر حملے کے بعد پاکستان میں طالبان شدت پسندوں کی ہر طبقہ فکر نے شدید مذمت کی ہے، جبکہ بعض حلقوں کی طرف سے ان عناصر کے مضبوط گڑھ، شمالی وزیرستان، میں فوجی کارروائی شروع کرنے کے مطالبات بھی کیے جا رہے ہیں۔
لیکن فوج کے ترجمان جنرل باجوہ کے بقول کہیں بھی ایسا آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ پاکستان کی سیاسی حکومت کرے گی۔ ’’ایسے (فوجی آپریشن کے) فیصلے راتوں رات نہیں کیے جاتے۔‘‘
ملالہ یوسف زئی کا تعلق وادی سوات سے ہے جہاں تین سال قبل طالبان عسکریت پسندوں کی آمد کے بعد اُس نے لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینے اور شدت پسندی کی مخالفت میں آواز بلند کی تھی۔
طالبان نے اس چودہ سالہ لڑکی پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ملالہ زندہ بچ گئی تو وہ دوبارہ اُس کو قتل کرنے کی کوشش کریں گے۔
کالعدم تحریک طالبان کے ایک ترجمان کے بقول ملالہ یوسف زئی کو طالبان کی مخالفت کرنے اور مغربی اقدار کی حمایت کرنے کی سزا دی گئی ہے۔
پاکستانی حکام نے درجنوں مشتبہ افراد کو حراست میں لے کر سوات کے انتظامی مرکز مینگورہ میں کیے گئے اس حملے کی تحقیقات شروع کر رکھی ہیں، جبکہ حکومت نے قاتلوں کی گرفتاری میں مدد دینے پر ایک کروڑ روپے نقد انعام کا اعلان بھی کیا ہے۔
اُدھر افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے پاکستان میں بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین کے نام خطوط میں ملالہ یوسف زئی پر طالبان کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے سرحد کی دونوں جانب انتہا پسندی کے خلاف جاری جنگ میں اُن سے مدد کرنے کو کہا ہے۔
کابل میں صدارتی محل سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق افغان رہنما نے پاکستانی سیاست دانوں سے کہا ہے کہ دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف افغانستان اور پاکستان میں ’’مربوط اور سنجیدہ‘‘ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
بیان کے مطابق صدر کرزئی کی نظر میں ملالہ پر قابل مذمت حملہ افغانستان کی لڑکیوں پر بھی حملہ ہے۔
افغان صدر نے پاکستان کے ایک درجن سے زائد سیاسی و مذہبی رہنماؤں کو یہ خطوط ارسال کیے ہیں۔
ان میں حکمران پیپلز پارٹی کے سربراہ پاکستانی صدر آصف علی زرداری، وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف، مسلم لیگ (ن) کے رہنما نواز شریف، جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد، حکمران اتحاد میں شامل مسلم لیگ (ق) کے چودھری شجاعت حسین اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان شامل ہیں۔
عمران خان پاکستانی قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کے مشتبہ ٹھکانوں کے خلاف امریکی ڈرون حملوں کے سخت مخالف ہیں۔
اُن کا موقف رہا ہے کہ واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں تعاون پاکستان میں طالبان شدت پسندوں کی تخریبی کارروائیوں کی بڑی وجہ ہے اور اُن کے بقول افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی سے قبائلی علاقوں میں شدت پسندی کی لہر بھی دم توڑ دے گی۔
امارات میں پاکستانی سفیر جمیل احمد نے اتوار کو نجی ٹی وی چینلز کو بتایا کہ جہاز کے عملے اور اُن کے ہمراہ سفر کرنے والے چھ ڈاکٹروں کو ویزے جاری کیے جا رہے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ دوبئی میں اور ابوظہبی کے تین اسپتالوں میں ملالہ کے علاج کے انتظامات کر لیے گئے ہیں۔
ملالہ راولپنڈی کے ایک فوجی اسپتال میں زیر علاج ہے جہاں فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے اتوار کو ایک بیان میں کہا ہے کہ اُسے بیرون ملک بھیجنے کے بارے میں ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔
اُنھوں نے ملالہ کی حالت کو ’’تسلی بخش‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں بتدریج بہتری آرہی ہے، اور امارات سے ائر ایمبولینس کی آمد کسی ہنگامی حالت سے نمٹنے کی منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔
فوج کے ترجمان نے ہفتہ کو راولپنڈی میں صحافیوں کو بتایا تھا کہ ملالہ کے بازو اور ٹانگوں نے حرکت شروع کردی ہے، جو ایک مثبت پیش رفت ہے۔ مگر اُنھوں نے کہا کہ وہ بدستور بے ہوشی کی حالت اور ’وینٹیلیٹر‘ یا مصنوعی نظام تنفس پر ہے۔
’’یہ سر میں شدید چوٹ کا معاملہ ہے جس میں بہتری کی رفتار بہت سست ہوتی ہے۔‘‘
ملالہ پر حملے کے بعد پاکستان میں طالبان شدت پسندوں کی ہر طبقہ فکر نے شدید مذمت کی ہے، جبکہ بعض حلقوں کی طرف سے ان عناصر کے مضبوط گڑھ، شمالی وزیرستان، میں فوجی کارروائی شروع کرنے کے مطالبات بھی کیے جا رہے ہیں۔
لیکن فوج کے ترجمان جنرل باجوہ کے بقول کہیں بھی ایسا آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ پاکستان کی سیاسی حکومت کرے گی۔ ’’ایسے (فوجی آپریشن کے) فیصلے راتوں رات نہیں کیے جاتے۔‘‘
ملالہ یوسف زئی کا تعلق وادی سوات سے ہے جہاں تین سال قبل طالبان عسکریت پسندوں کی آمد کے بعد اُس نے لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینے اور شدت پسندی کی مخالفت میں آواز بلند کی تھی۔
طالبان نے اس چودہ سالہ لڑکی پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ملالہ زندہ بچ گئی تو وہ دوبارہ اُس کو قتل کرنے کی کوشش کریں گے۔
کالعدم تحریک طالبان کے ایک ترجمان کے بقول ملالہ یوسف زئی کو طالبان کی مخالفت کرنے اور مغربی اقدار کی حمایت کرنے کی سزا دی گئی ہے۔
پاکستانی حکام نے درجنوں مشتبہ افراد کو حراست میں لے کر سوات کے انتظامی مرکز مینگورہ میں کیے گئے اس حملے کی تحقیقات شروع کر رکھی ہیں، جبکہ حکومت نے قاتلوں کی گرفتاری میں مدد دینے پر ایک کروڑ روپے نقد انعام کا اعلان بھی کیا ہے۔
اُدھر افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے پاکستان میں بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین کے نام خطوط میں ملالہ یوسف زئی پر طالبان کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے سرحد کی دونوں جانب انتہا پسندی کے خلاف جاری جنگ میں اُن سے مدد کرنے کو کہا ہے۔
کابل میں صدارتی محل سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق افغان رہنما نے پاکستانی سیاست دانوں سے کہا ہے کہ دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف افغانستان اور پاکستان میں ’’مربوط اور سنجیدہ‘‘ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
بیان کے مطابق صدر کرزئی کی نظر میں ملالہ پر قابل مذمت حملہ افغانستان کی لڑکیوں پر بھی حملہ ہے۔
افغان صدر نے پاکستان کے ایک درجن سے زائد سیاسی و مذہبی رہنماؤں کو یہ خطوط ارسال کیے ہیں۔
ان میں حکمران پیپلز پارٹی کے سربراہ پاکستانی صدر آصف علی زرداری، وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف، مسلم لیگ (ن) کے رہنما نواز شریف، جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد، حکمران اتحاد میں شامل مسلم لیگ (ق) کے چودھری شجاعت حسین اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان شامل ہیں۔
عمران خان پاکستانی قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کے مشتبہ ٹھکانوں کے خلاف امریکی ڈرون حملوں کے سخت مخالف ہیں۔
اُن کا موقف رہا ہے کہ واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں تعاون پاکستان میں طالبان شدت پسندوں کی تخریبی کارروائیوں کی بڑی وجہ ہے اور اُن کے بقول افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی سے قبائلی علاقوں میں شدت پسندی کی لہر بھی دم توڑ دے گی۔