میلریا کے خلاف عالمی دن کے موقع پر پیر کو پاکستان بھر میں تقاریب منعقد ہوئیں اور ملکی اور گیر ملکی اداروں نے اس بات کا عزم کیا کہ اس جان لیوا مرض سے بچاؤ کو یقینی بنایا جائے گا۔
2007 میں ورلڈ ہیلتھ اسمبلی نے اپنے ان تمام رکن ملکوں کو ملیریا کے خلاف عالمی دن منانے کے لئے کہا تھا جہاں یہ جان لیوا مرض پایا جاتا ہے یا اس کے دوبارہ سر اٹھانے کا خطرہ موجود ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ ملیریا جن مٕخصوص مچھروں کے کاٹنے سے لاحق ہوتا ہے ان میں سے دو اقسام کے مچھر پاکستان میں بہت زیادہ پائے جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ملک میں اس مرض سے سالانہ دو لاکھ کے قریب افراد متاثر جبکہ تین ہزار سے زائد ہلاک ہو جاتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے نیشنل ملیریا کنڑول پروگرام کے ڈائریکٹر اسلم خان نے کہا کہ اس بیماری سے ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر حاملہ مائیں اور پانچ سال سے کم عمر کے بچے ہیں۔
ملیریا سب سے زیادہ وفاق کے زیر انتطام قبائلی علاقوں یعنی فاٹا، بلوچستان ، خیبر پختون خواہ اور سندھ میں پایا جاتا ہے۔
پروگرام کے ڈائریکٹر نے بتایا کہ ملک کے جن48 اضلاع میں ملیریا سب سے زیادہ پایا جاتا ہے وہاں حکومت مفت مچھر دانیاں فراہم کر رہی ہے اور 30 کے قریب ایسے مراکز قائم کئے گئے ہیں جہاں جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے نا صرف منٹوں کے اندر ملیریا کی تشخیص کی جاتی ہے بلکہ مریضوں کومفت دوائیاں بھی دی جاتی ہیں ۔
وفاقی وزارت صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر اسد حفیظ نے کہا کہ گذشتہ سالوں کے دوران ملیریا پر قابو پانے میں خاطر خواہ پیش رفت ہوئی تھی لیکن 2010 کے سیلاب اور اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر ہونے والی نقل مکانی کے باعث اس سے متاثر ہونے والے مریضوں کی اوسط تعداد دگنی سے بھی زیادہ ہو گئی ۔
’’2009 میں ملیریا کے سالانہ واقعات کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار تھی لیکن سیلاب کی وجہ سے اس میں تین لاکھ تک اضافہ ہو گیا‘‘۔
ان کا کہنا تھا کہ اضافے نے ملیریا پر قابو پانے کی کوششوں کو بہت متاثر کیا ہے لیکن اس کے باوجود ڈاکٹر اسد حفیظ پر امید تھے کہ عالمی اداروں کے تعاون سے ملیریا سے ہونے والی اموات کی تعداد صفر پر لانا ممکن ہے۔
اقوام متحدہ کے مقرر کردہ میلینیم ڈویلپمنٹ گولز کے مطابق پاکستان اس بات کو یقینی بنانے کا پابند ہے کہ 2015 کے بعد ملیریا سے کوئی موت واقع نا ہو۔