رسائی کے لنکس

ذرائع ابلاغ کو کالعدم تنظیموں کے بیانات کی تشہیر سے پرہیز کی ہدایت


سپریم کورٹ آف پاکستان (فائل فوٹو)
سپریم کورٹ آف پاکستان (فائل فوٹو)

پاکستان کی عدالت عظمٰی نے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو دہشت گردی میں ملوث افراد یا تنظیموں کے بیانات کے پرچار سے گریز کرنے کا انتباہ کیا ہے۔

پاکستان کی عدالت عظمٰی نے ذرائع ابلاغ کو دہشت گردی میں ملوث افراد یا کالعدم تنظیموں کے بیانات کے پرچار سے گریز کرنے کا انتباہ کیا ہے۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں عدالت کے ایک تین رکنی بینچ نے یہ تنبیہہ گزشتہ ہفتے بلوچستان میں امن و امان سے متعلق مقدمے کی سماعت کے اختتام پر اپنے عبوری فیصلے میں کی تھی۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں انسداد دہشت گردی ایکٹ متعلقہ شقوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’کالعدم مذہبی انتہاء پسند، فرقہ وارانہ یا دہشت گرد تنظیم یا اس سے تعلق رکھنے والے فرد کی کسی بھی طریقے سے تشہیر جرم ہے‘‘۔

عدالت نے کہا کہ ذرائع ابلاغ کو اس قانون کی ’’سختی‘‘ سے پابندی کرنے کی ضرورت ہے۔

صحافی برادری میں بالخصوص نجی ٹی وی چینلز سے متعلق قوائد و ضوابط وضع کرنے کی ضرورت پر زور دیتی آئی ہے مگر بیشتر صحافیوں نے عدالت عظمٰی کے فیصلے پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ کسی بھی ریاستی ادارے کی طرف سے ایسے اقدامات آزادی رائے پر قدغن کے مترادف ہیں۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر پرویز شوکت نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کوئی صحافی بھی جان بوجھ کرجانبدارانہ رپورٹنگ نہیں کرتا۔

’’اگر حکومت کا نقطہ نظر بیان کریں تو شدت پسند ناراض ہوتے ہیں اور ان کا کریں تو حکومت۔ صحافی تو بہت ہی مشکل حالات میں کام کر رہے ہیں۔ ہمارے پیشہ ورانہ اصول نہ اجازت دیتے ہیں کہ ہم یک طرفہ خبر دیں یا کسی کو نظر انداز یا بڑھا چڑھا کر پیش کریں۔‘‘

نجی ٹی وی چینل ڈان کے ایڈیٹر نارتھ مبشر زیدی کا کہنا ہے کہ میڈیا کے بیشتر حلقوں میں شدت پسندی اور قوم پرستوں سے متعلق خبریں نشر کرنے اور اُن کی اشاعت پر ملک میں مسلسل بحث جاری ہے جس سے عمومی صورت حال میں بہتری کی توقع ہے۔

’’آئین میں دی گئی اظہارِ رائے کی آزادی کو عدالت ختم نہیں کر سکتی۔ اس قسم کی قدغن عدالت یا کسی بھی دوسرے ادارے سے آئے گی تو میڈیا میں اسے تعمیری نظر سے نہیں بلکہ اسے قدغن ہی مانا جائے گا۔ ‘‘

پاکستان میں حالیہ برسوں میں صحافت کے شعبے سے وابستہ افراد کے خلاف تشدد کے واقعات میں غیر معمولی اضافے کے بعد گزشتہ سال اسے صحافیوں کے لیے دنیا کا خطرناک ترین ملک قرار دیا گیا تھا۔

صحافیوں کے حقوق کی علمبردار مقامی و بین الاقوامی تنظیموں کے مطابق 2011 میں ملک بھر میں کم ازکم گیارہ پاکستانی صحافی ہلاک ہوئے، جبکہ اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران لاتعداد صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بھی بننا پڑا ہے۔
XS
SM
MD
LG