اسلام آباد —
پاکستانی ذرائع ابلاغ کے ایک بڑے ادارے ’جنگ گروپ‘ نے گزشتہ ماہ فوج کے انٹیلی جنس ایجنسی ادارے آئی ایس آئی کے خلاف کئی گھنٹوں کی نشریاتی مہم چلانے پر معافی مانگ لی ہے۔
جنگ گروپ کی طرف سے تسلیم کیا گیا کہ حامد میر پر حملے کے بعد ان کی نشریات ’’متجاوز، پریشان کن اور جذباتی‘‘ تھیں۔
’’ان نشریات سے آئی ایس آئی بطور ادارہ، اس کے ڈائریکٹر جنرل ظہیرالاسلام، ان کے اہل خانہ اور مسلح افواج سے وابستہ تمام افراد اور ہمارے ناظرین کی بڑی تعداد کو جو دکھ پہنچا، اس پر ہم ان سب سے خلوص دل کے ساتھ معافی کے خواستگار ہیں۔‘‘
گروپ کے اخبارات ’دی نیوز‘ اور ’جنگ‘ کے صفحہ اول پر پیر کو شائع کردہ بیان میں کہا گیا کہ نشریاتی ادارہ اور اس کی انتظامیہ اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ ’’ہماری کبھی یہ نیت نہیں رہی کہ کسی بھی ادارے یا شخصیت کو بدنام کیا جائے یا اس کی توہین کی جائے۔‘‘
کراچی میں 19 اپریل کو جیو کے صحافی حامد میر پر قاتلانہ حملے کے بعد اُن کے نشریاتی ادارے نے حامد میر اور اُن بھائی کی طرف سے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹینٹ جنرل ظہیر الاسلام کے خلاف لگائے گئے الزامات کو کئی گھنٹوں تک نشر کیا، جس پر کئی دیگر مقامی ٹیلی ویژن چینلز اور سیاسی حلقوں نے ’’صحافتی اقدار کی خلاف وزی‘‘ پر جیو ٹی وی چینل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کارروائی کا مطالبہ بھی کیا۔
جب کہ وزارت دفاع نے پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کے نگران ادارے ’’پمیرا‘‘ کو جیو چینل کے خلاف کارروائی کی درخواست دی۔ درخواست کا ’’بغور جائزہ‘‘ لینے کے بعد وزارت قانون نے گزشتہ ہفتے پیمرا کو اس بارے فیصلہ کرنے کا اختیار دے دیا تھا۔
پیمرا کی ایک کمیٹی کے اراکین کا منگل کو ایک اجلاس بھی ہو رہا ہے جو جیو سے متعلق معاملات کا جائزہ لینے کے بعد شاید کوئی فیصلہ بھی کرے۔
ایک سینیئر صحافی شاہد الرحمان کا وائس آف مریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ اس واقعے کے بعد پاکستانی میڈیا پر دباؤ بڑے گا، لیکن اُن کے بقول میڈیا ہاؤسز کے مالکان کو ’’اس سے سبق سیکھنا چاہیئے‘‘۔
’’ہمارے جیسے ملک میں جہاں اسٹیبلشمنٹ، بیوروکریسی اور کاروباری مفادات رکھنے والے بہت مضبوط ہوں وہاں آزاد صحافی یا صحافت کو ایک خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔ جو طبقہ طاقت میں رہا ہے اس کی کوشش ہو گی کہ اخبار والوں کو کمزور کیا جائے۔۔۔۔ اگر پاک ہیں تو کسی اخبار والے کو خطرہ نہیں ہونا چاہیئے۔‘‘
وزیراعظم کے خصوصی معاون برائے قومی امور عرفان صدیقی نے بتایا کہ میڈیا سے متعلق بحران کے تناظر میں حکومت پاکستانی ذرائع ابلاغ کی مشاورت سے سابق جج کی سربراہی میں ایک کمیشن تشکیل دینے کا ارادہ رکھتی ہے جو شکایات سننے کا مجاز ہو گا۔ اُنھوں نے کہا کہ مجوزہ کمیشن کو کسی نشریاتی ادارے کے خلاف کارروائی کا اختیار دیا جا سکتا ہے۔
’’جیسے ہمارے یہاں کوئی قاعدہ ہی نہیں ہے، ریگولیشن نہیں ہیں، تو یہ ایسی چیز تھی کہ جس نے کئی جگہوں پر خطرے کی گھنٹیاں بجا دیں اور محسوس ہونے لگا کہ کیا اس کا نام آزادی ہے اور اگر یہی آزادی ہے تو کیا پریس اپنی حقیقی آزادی برقرار رکھ سکے گا۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ حکومت ہر گز نہیں چاہتی کہ اپنی ریگولیشن کے ذریعے پروان چڑھنے والی میڈیا کی آزادی کو ’’زنجیریں‘‘ ڈالی جائیں۔
حالیہ ہفتوں میں جیو نیٹ ورک کی پریشانی میں اضافہ اُس وقت ہوا جب ’جیو انٹرٹینمنٹ‘ کے پروگرام میں مقدس اسلامی شخصیات کی مبینہ طور پر توہین کی گئی۔
جس کے خلاف مختلف شہروں میں مظاہروں میں اس نشریاتی ادارے کے بند کرنے کے مطالبے کیے گئے اور جنگ گروپ کے مالک میر شکیل الرحمٰن اور پروگرام کی میزبان شائشتہ لودھی کے خلاف توہین اسلام اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت پولیس نے شکایات درج کیں۔
جیو نیٹ ورک اپنے اس پروگرام میں ’نادانستہ غلطی‘ کا پہلے ہی اعتراف کرتے ہوئے معدزت کر چکا ہے۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی غیر جانبدار تنظیم ’’ایچ آر سی پی‘‘ نے جیو چینل کے خلاف مہم پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے نا صرف آزادی رائے پر قدغن لگے گی بلکہ نشریاتی ادارے سے وابستہ افراد کی جانوں کو بھی خطرہ لاحق ہوگ یا ہے۔
’’دی نیوز‘‘ اور ’’جنگ‘‘ نے پیر کو اپنی ایک خبر میں کہا کہ لاہور میں جیو اور جنگ کی گاڑیوں پر نا معلوم افراد نے حملہ کر کے جلا دیا اور ڈرائیور کو زد و کوب کیا گیا۔
جنگ گروپ کی طرف سے تسلیم کیا گیا کہ حامد میر پر حملے کے بعد ان کی نشریات ’’متجاوز، پریشان کن اور جذباتی‘‘ تھیں۔
’’ان نشریات سے آئی ایس آئی بطور ادارہ، اس کے ڈائریکٹر جنرل ظہیرالاسلام، ان کے اہل خانہ اور مسلح افواج سے وابستہ تمام افراد اور ہمارے ناظرین کی بڑی تعداد کو جو دکھ پہنچا، اس پر ہم ان سب سے خلوص دل کے ساتھ معافی کے خواستگار ہیں۔‘‘
گروپ کے اخبارات ’دی نیوز‘ اور ’جنگ‘ کے صفحہ اول پر پیر کو شائع کردہ بیان میں کہا گیا کہ نشریاتی ادارہ اور اس کی انتظامیہ اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ ’’ہماری کبھی یہ نیت نہیں رہی کہ کسی بھی ادارے یا شخصیت کو بدنام کیا جائے یا اس کی توہین کی جائے۔‘‘
کراچی میں 19 اپریل کو جیو کے صحافی حامد میر پر قاتلانہ حملے کے بعد اُن کے نشریاتی ادارے نے حامد میر اور اُن بھائی کی طرف سے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹینٹ جنرل ظہیر الاسلام کے خلاف لگائے گئے الزامات کو کئی گھنٹوں تک نشر کیا، جس پر کئی دیگر مقامی ٹیلی ویژن چینلز اور سیاسی حلقوں نے ’’صحافتی اقدار کی خلاف وزی‘‘ پر جیو ٹی وی چینل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کارروائی کا مطالبہ بھی کیا۔
جب کہ وزارت دفاع نے پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کے نگران ادارے ’’پمیرا‘‘ کو جیو چینل کے خلاف کارروائی کی درخواست دی۔ درخواست کا ’’بغور جائزہ‘‘ لینے کے بعد وزارت قانون نے گزشتہ ہفتے پیمرا کو اس بارے فیصلہ کرنے کا اختیار دے دیا تھا۔
پیمرا کی ایک کمیٹی کے اراکین کا منگل کو ایک اجلاس بھی ہو رہا ہے جو جیو سے متعلق معاملات کا جائزہ لینے کے بعد شاید کوئی فیصلہ بھی کرے۔
ایک سینیئر صحافی شاہد الرحمان کا وائس آف مریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ اس واقعے کے بعد پاکستانی میڈیا پر دباؤ بڑے گا، لیکن اُن کے بقول میڈیا ہاؤسز کے مالکان کو ’’اس سے سبق سیکھنا چاہیئے‘‘۔
’’ہمارے جیسے ملک میں جہاں اسٹیبلشمنٹ، بیوروکریسی اور کاروباری مفادات رکھنے والے بہت مضبوط ہوں وہاں آزاد صحافی یا صحافت کو ایک خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔ جو طبقہ طاقت میں رہا ہے اس کی کوشش ہو گی کہ اخبار والوں کو کمزور کیا جائے۔۔۔۔ اگر پاک ہیں تو کسی اخبار والے کو خطرہ نہیں ہونا چاہیئے۔‘‘
وزیراعظم کے خصوصی معاون برائے قومی امور عرفان صدیقی نے بتایا کہ میڈیا سے متعلق بحران کے تناظر میں حکومت پاکستانی ذرائع ابلاغ کی مشاورت سے سابق جج کی سربراہی میں ایک کمیشن تشکیل دینے کا ارادہ رکھتی ہے جو شکایات سننے کا مجاز ہو گا۔ اُنھوں نے کہا کہ مجوزہ کمیشن کو کسی نشریاتی ادارے کے خلاف کارروائی کا اختیار دیا جا سکتا ہے۔
’’جیسے ہمارے یہاں کوئی قاعدہ ہی نہیں ہے، ریگولیشن نہیں ہیں، تو یہ ایسی چیز تھی کہ جس نے کئی جگہوں پر خطرے کی گھنٹیاں بجا دیں اور محسوس ہونے لگا کہ کیا اس کا نام آزادی ہے اور اگر یہی آزادی ہے تو کیا پریس اپنی حقیقی آزادی برقرار رکھ سکے گا۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ حکومت ہر گز نہیں چاہتی کہ اپنی ریگولیشن کے ذریعے پروان چڑھنے والی میڈیا کی آزادی کو ’’زنجیریں‘‘ ڈالی جائیں۔
حالیہ ہفتوں میں جیو نیٹ ورک کی پریشانی میں اضافہ اُس وقت ہوا جب ’جیو انٹرٹینمنٹ‘ کے پروگرام میں مقدس اسلامی شخصیات کی مبینہ طور پر توہین کی گئی۔
جس کے خلاف مختلف شہروں میں مظاہروں میں اس نشریاتی ادارے کے بند کرنے کے مطالبے کیے گئے اور جنگ گروپ کے مالک میر شکیل الرحمٰن اور پروگرام کی میزبان شائشتہ لودھی کے خلاف توہین اسلام اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت پولیس نے شکایات درج کیں۔
جیو نیٹ ورک اپنے اس پروگرام میں ’نادانستہ غلطی‘ کا پہلے ہی اعتراف کرتے ہوئے معدزت کر چکا ہے۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی غیر جانبدار تنظیم ’’ایچ آر سی پی‘‘ نے جیو چینل کے خلاف مہم پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے نا صرف آزادی رائے پر قدغن لگے گی بلکہ نشریاتی ادارے سے وابستہ افراد کی جانوں کو بھی خطرہ لاحق ہوگ یا ہے۔
’’دی نیوز‘‘ اور ’’جنگ‘‘ نے پیر کو اپنی ایک خبر میں کہا کہ لاہور میں جیو اور جنگ کی گاڑیوں پر نا معلوم افراد نے حملہ کر کے جلا دیا اور ڈرائیور کو زد و کوب کیا گیا۔