پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے متنبہ کیا ہے کہ سیاسی حکومت کے خلاف کسی غیر آئینی اقدام کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
یہ انتباہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے امریکی قیادت کے نام متنازع میمو یا خط کے معاملے پر جمعہ کو ہونے والی سماعت کے دوران اپنے ریمارکس میں کیا۔
اُنھوں نے کہا کہ کوئی جمہوری اقتدار پر قبضہ نہیں کر سکتا کیوں کہ آئین بالادست ہے اور ’’وہ دن گئے جب عدالت (عظمیٰ) غیر آئینی اقدامات کی توثیق کیا کرتی تھی‘‘۔
ماضی میں سایسی حکومتوں کے خلاف فوجی بغاوت کے بعد سپریم کورٹ ان اقدامات کو قانونی تحفظ فراہم کرتی آئی ہے۔
وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے جمعرات کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں تقریر کے دوران بظاہر فوج کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ریاست کے اندر ریاست نہیں ہو سکتی اور نا ہی یہ قابل قبول ہے‘‘۔
اُن کے بقول پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کے خلاف سازشیں کی جا رہی ہیں، تاہم اُنھوں نے اس حوالے سے کسی ادارے کا نام نہیں لیا۔
پاکستانی وزیر اعظم کی فوج پر اس غیر معمولی تنقید کے بعد سیاسی حلقوں اور ملکی و بین الاقوامی میڈیا میں حکومت اور فوج کے درمیان تصادم کی قیاس آرائیاں زور پکڑ گئیں۔
مبصرین کے خیال میں دونوں ریاستی اداروں کے درمیان کشیدگی کی وجہ میمو اسکینڈل ہی ہے جس پر دونوں نے بالکل متضاد موقف اختیار کر رکھا ہے۔
فوجی قیادت نے عدالت میں جمع کرائے گئے جوابات میں مبینہ طور پر صدر آصف علی زرادری کی ایما پر بھیجے گئے خفیہ خط کو ایک حقیقت بیان کرتے ہوئے اس معاملے کی تحقیقات کی حمایت کی ہے، جب کہ سیاسی حکومت نے اس کو محض مفروضہ قرار دے کر یکسر مسترد کر دیا ہے۔