پاکستان میں روزگار کے متلاشی تارکینِ وطن کو حقوق کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے حکومت متعلقہ بین الاقوامی قانون کی توثیق پر غور کر رہی ہے۔
وزارت برائے ترقی افرادی قوت کے سنٹرل لیبر ایڈوائزر جاوید گِل نے یہ انکشات اسلام آباد میں منگل کو ہونے والے ایک مشاورتی اجلاس میں کیا، جس میں محنت کشوں سے متعلق عالمی تنظیم ’آئی ایل او‘ اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین ’یو این ایچ سی آر‘ کے اعلیٰ عہدے دار بھی شریک تھے۔
جاوید گِل نے کہا کہ حکومتِ پاکستان افغان پناہ گزینوں کو مناسب روز گار کی فراہمی کے سلسلے میں آئی ایل او اور یو این ایچ سی آر کی کوششوں کی مکمل حمایت کرے گی۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ حالیہ جائزوں میں پشاور اور کوئٹہ میں افغانوں کو مناسب روزگار کے حصول میں مشکلات کی تصدیق کی گئی ہے۔
آئی ایل او کے مقامی سربراہ فرانسیسکو دویدیو نے اجلاس کے شرکاء سے خطاب میں کہا کہ حکومتِ پاکستان ڈیڑھ لاکھ افغانوں کو ملک میں کام کے لیے اجازت نامے دینے پر غور کر رہی ہے، جس کے بعد ان افراد کو ’مائگرنٹ ورکرز‘ کا درجہ حاصل ہو جائے گا۔
لیکن سرحدی اُمور سے متعلق وفاقی وزیر شوکت اللہ خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حکومت مجوزہ منصوبے کے تحت افغان تاجروں کی محدود تعداد کو اجازت نامے جاری کرے گی۔
’’ابھی ہم ابتدائی مراحل میں ہیں ... اگر افغان تاجر باضابطہ اجازت کے تحت رہیں گے تو وہ ٹیکس بھی دیں گے اور ملک کی معیشت میں اُن کا مثبت کردار ہوگا۔ لیکن یہ بہت کم تعداد میں ہوں گے، یہ نہیں کہ ہم لاکھوں افرار کو ورک پرمٹ جاری کریں گے۔‘‘
لیکن شوکت اللہ خان کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکومت اپنے اس موقف پر قائم ہے کہ ملک میں موجود لاکھوں افغان مہاجرین کو 2012ء کے اختتام تک اپنے آبائی وطن لوٹ جانا چاہیئے۔
البتہ اُنھوں نے واضح کیا کہ یہ عمل مکمل طور پر رضا کارانہ ہوگا اور کسی بھی شخص کو وطن واپسی پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔
وفاقی وزیر نے تسلیم کیا اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ مقررہ مدت کے بعد بھی افغانوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان میں ہی موجود رہے گی اور اس ممنکہ صورت حال سے نمٹنے کے لیے بھی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔
’’ہم مخصوص خاندانوں اور طالب علموں کے لیے ویزے متعارف کرنے پر بھی غور کر رہے ہیں تاکہ وہ آزادانہ طریقے سے یہاں رہ سکیں ... 30 برس طویل عرصہ ہوتا ہے اور ہم یہ نہیں چاہتے کہ یہ لوگ ہمارے بارے میں ایسی سوچ لے کر جائیں کہ وہاں (افغانستان) میں ہم برے لگنے لگیں۔‘‘
پاکستانی حکام اور اقوام متحدہ کے مطابق اس وقت پاکستان میں موجود افغان پناہ گزینوں کی تعداد تقریباً 30 لاکھ ہے، جن میں سے 17 لاکھ اندراج شدہ ہیں۔
اقوام متحدہ کا ادارہ برائے پناہ گزین کئی برسوں سے افغانوں کی وطن واپسی کے منصوبے پر کام کر رہا ہے لیکن افغانستان میں سلامتی کے خدشات اور ذریعہ معاش کے محدود موقعوں کی وجہ سے بیشتر پناہ گزین وطن واپسی سے گریزاں ہیں۔