پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبرپختونخواہ میں جمعہ کو دہشت گردی کے دو مختلف واقعات میں ایک درجن سے زائد افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔
حکام کے مطابق مردان کی ضلع کچہری میں حملہ آور نے پہلے دستی بم پھینکا اور جسے ایک پولیس اہکار نے جب پکڑنے کی کوشش کی تو اس نے اپنے جسم سے بندھے بارودی مواد میں دھماکا کر دیا۔
دھماکے میں وکلا اور پولیس اہلکاروں سمیت کم ازکم 12 افراد ہلاک جب کہ درجنوں زخمی ہو گئے جن میں بعض کی حالت تشویشناک ہونے کی وجہ سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
مردان کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس اعجاز خان نے موقع پر صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ابتدائی اطلاعات کے مطابق خودکش حملہ آور بار روم میں جانا چاہتا تھا۔
’’بار کے صدر کا جو بیان تھا اور جو شہادتیں ملی ہیں اُن کے مطابق خودکش حملہ آور کے پاس دستی بم تھا جو اُس نے پولیس والوں پر پھینکا اور خودکش حملہ آور عدالت کے احاطے میں سات آٹھ میٹر اندر داخل ہو گیا۔۔۔۔۔۔ بار صدر کے مطابق پولیس والوں نے فائرنگ کی اور اس کے نتیجے میں دوسرا دھماکا ہوا۔‘‘
اس دھماکے سے چند گھنٹے قبل ہی سکیورٹی فورسز نے مرکزی شہر پشاور کے قریب واقع کرسچیئن کالونی پر دہشت گردوں کا حملہ ناکام بنا دیا تھا۔
سکیورٹی حکام کے مطابق وارسک روڈ پر واقع "کرسچیئن کالونی" میں جمعہ کو علی الصبح مشتبہ دہشت گردوں نے فائرنگ کر کے گارڈ کو زخمی کر دیا اور پھر کالونی میں داخل ہو گئے۔
پولیس اور فوج کی نفری فوری طور پر یہاں پہنچ گئی اور مشتبہ دہشت گردوں کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ شروع ہو گیا۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ "آئی ایس پی آر" کے مطابق چار حملہ آور خودکش تھے جو فائرنگ کے تبادلے میں مارے گئے اور کالونی میں سرچ آپریشن کر دیا گیا۔
فائرنگ کے تبادلے میں ایف سی کے دو اور پولیس کا ایک اہلکار بھی زخمی ہوا جب کہ مقامی ذرائع کے مطابق مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والا ایک شخص زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔
بتایا جاتا ہے کہ حملہ آور کالونی کے عقب سے اس میں داخل ہوئے اور یہ جگہہ قبائلی علاقے مہمند ایجنسی کی سرحد کے قریب واقع ہے۔
بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے بروقت کارروائی کر کے دہشت گردی کی کوشش کو ناکام بنانے پر فوج، فرنٹیئر کور اور پولیس کی تعریف کی ہے۔
پشاور اور صوبہ خیبر پختونخواہ دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے پاکستانی علاقے ہیں جہاں اس سے قبل بھی شدت پسند متعدد مہلک ترین حملے کر چکے ہیں۔
ملکی تاریخ کا بدترین دہشت گرد حملہ بھی پشاور میں ہی ہوا جہاں 16 دسمبر 2014ء کو طالبان شدت پسندوں نے آرمی پبلک اسکول میں گھس کر ایک سو سے زائد بچوں سمیت 150 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔
گزشتہ ماہ جنوب مغربی صوبہ بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں ہونے والے ایک خودکش بم دھماکے میں 73 افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔
ملک کی سیاسی و عسکری قیادت کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو تباہ کر دیا گیا ہے اور پاکستان سے آخری دہشت گرد کے خاتمے تک سکیورٹی فورسز شدت پسندوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھیں گی۔