پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے 30 دہشت گردوں کے بلیک وارنٹ یعنی (موت کے پروانے) پر دستخط کر دیئے ہیں۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ’آئی ایس پی آر‘ سے جاری ایک بیان کے مطابق جن دہشت گردوں کے ڈیتھ وارنٹس پر دستخط کیے گئے، وہ پشاور کے آرمی پبلک اسکول اور سوات کے علاقے سیدو شریف کے ہوائی اڈے پر حملے کے علاوہ، فوج و قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں اور عام شہریوں کے اغوا اور قتل میں ملوث تھے۔
واضح رہے کہ رواں ہفتے ہی فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا تھا کہ آپریشن ’ردالفساد‘ کے تحت اُن مجرموں کی سزائے موت پر عمل درآمد تیز کیا جا رہا ہے، جنہیں فوجی عدالتوں سے سزائیں سنائی جا چکی ہیں۔
فوجی عدالتوں کے قیام کے بعد ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے جب فوج کے سربراہ نے ایک ہی روز 30 دہشت گردوں کے ’بلیک وارنٹس‘ پر دستخط کیے ہوں۔
پاکستانی پارلیمان سے منظوری کے بعد گزشتہ ماہ ہی فوج عدالتوں کی مدت میں مزید دو سال کی توسیع کی گئی تھی۔
پشاور میں دسمبر 2014ء میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے مہلک حملے کے بعد ملک میں دو سال کی مدت کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے 21 ویں آئینی ترمیم منظور کی گئی تھی۔
لیکن وہ دو سالہ مدت رواں سال سات جنوری کو ختم ہو گئی تھی، جس کے بعد ایک مرتبہ پھر سیاسی جماعتوں نے مشاورت کے بعد مزید دو سال کے لیے فوجی عدالتوں میں توسیع کا فیصلہ کیا تھا۔
پہلی دو سالہ مدت کے دوران فوجی عدالتوں میں 274 مقدمات سنے گئے جن میں سے 161 مجرموں کو سزائے موت جب کہ دیگر افراد کو اُن کے جرائم کی نوعیت کے حساب سے مختلف مدت کی قید کی سزائیں سنائی گئیں۔
اگرچہ انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کی طرف سے فوجی عدالتوں سے سنائی جانے والی سزاؤں کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ ملک کو درپیش غیر معمولی حالات سے نمٹنے کے لیے یہ خصوصی عدالتیں بنائی گئیں اور دوران سماعت تمام ملزمان کو صفائی کا پورا موقع دیا گیا۔