صوبہ خیبر پختون خواہ کے ضلع لوئر دیر میں خود کار ہتھیاروں سے لیس بیسیوں شدت پسندوں نے سکیورٹی فورسز کی ایک چوکی پر حملہ کر کے کم از کم 14اہلکاروں کو ہلاک کر دیا ہے۔
مقامی ذرائع اورفوجی حکام نے بتایا کہ جمعرات کی شب شروع ہونے والی جھڑپیں جمعہ کی صبح بھی جاری رہیں۔اطلاعات کے مطابق چوکی پر لگ بھگ 30 اہلکار تعینات تھے اور اُن میں کئی لڑائی کے دوران زخمی بھی ہوئے۔
2009ء کے وسط میں پاکستانی فوج نے دیر اور اس سے ملحقہ وادی سوات میں ایک کامیاب آپریشن کرکے ان علاقوں کے بیشتر حصوں میں شدت پسندوں کا صفایا کر دیا تھا۔لوئر دیر کی سرحدیں شورش زدہ قبائلی علاقوں باجوڑ اور مہمند ایجنسی سے ملتی ہیں جہاں سکیورٹی فورسز نے شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں اضافہ کر رکھا ہے۔
پاکستانی فوج کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق جنرل اشفاق پرویز کیانی نے جمعرات کو مہمند ایجنسی کا ایک ایسے وقت دورہ کیا جب وہاں جاری ”آپریشن بریخنہ‘ کے دوسرے مرحلے کا آغاز کیا جا رہا تھا۔ تازہ کارروائیاں افغان سرحد سے ملحقہ علاقے سورن سیکٹر میں کی جا رہی ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ فوج نے مہمند ایجنسی میں ”آپریشن بریخنہ“ کے پہلے مرحلے میں داویزئی کے علاقے میں طالبان کا صفایا کر دیا ہے۔ اس کارروائی کے دوران درجنوں جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
فوجی حکام کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی ”دہشت گردوں کے مظالم کا نشانہ بننے والے“ قبائل اور مقامی انتظامیہ کی درخواست پر شروع کی گئی ہے۔ مہمند ایجنسی میں حالیہ چند مہینوں کے دوران خودکش حملوں، اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کے علاوہ قبائلی عمائدین جنھیں ”مَلک“ کا خطاب دیا جاتا ہے، کے قتل کی وارداتوں میں تیزی آئی ہے۔
پاکستانی حکام کا الزام ہے کہ طالبان شدت پسند افغان سرحد پار کرکے پاکستان کے علاقوں میں سکیورٹی فورسز اور دیگر اہداف پر ہلاکت خیز حملے کر رہے ہیں اور اس نقل و حمل کو روکنے کے لیے بین الاقوامی اور افغان فورسز موثر اقدامات نہیں کر رہی ہیں۔