اسلام آباد —
پاکستان کی وزارت دفاع کی طرف سے منگل کو سپریم کورٹ کو آگاہ کیا گیا کہ 33 لاپتہ افراد میں سے چند کسی بھی سیکورٹی ادارے کی تحویل میں نہیں بلکہ ایک تو ملک چھوڑ کر سعودی عرب جا چکا ہے۔
ایڈیشنل سیکرٹری عارف نذیر نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کے سامنے پیش ہو کر بتایا کہ مبینہ طور پر 33 لاپتہ افراد کی تلاش ابھی بھی جاری ہے جس میں کچھ وقت لگے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ دو مشتبہ افراد فوج کے بحالی مراکز میں مقرر وقت گزارنے کے بعد اب ’’با عزت‘‘ روزگار کما رہے ہیں تاہم ان کے بقول جان کو لاحق خطرات کے باعث ان لوگوں کے نام اور پتے کو صیغہ راز میں رکھا جائے۔
سابق میجر جنرل عارف نذیر نے عدالت کو بتایا کہ سفری دستاویزات اور متعلقہ محکموں سے معلوم ہوا ہے کہ انہی کا ایک ساتھی کچھ عرصہ پہلے سعودی عرب جا چکا ہے۔
عدالت عظمیٰ کی طرف سے باقی لاپتہ مشتبہ افراد کی بازیابی کے مسلسل اصرار پر وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ معاملہ وزیراعظم اور اعلیٰ فوجی عہدیداروں کے سامنے اٹھایا ہے اور عدالت کو اس پر بہت کم عرصے میں پیش رفت کی یقین دہانی کرائی جاتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ صوبہ خیبرپختونخواہ میں 43 تفتیشی مراکز ہیں اور ان افراد کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنے کے لیے کچھ وقت درکار ہوگا۔
سماعت کے دوران مبینہ لاپتہ افراد کو پیش نا کرنے پر عدالت کی طرف سے ایک موقع پر ’’سخت‘‘ احکامات کا عندیہ بھی دیا گیا اور وزیر اور وزارت کے اعلیٰ عہدیدار کو دو گھنٹوں کی مہلت بھی دی گئی کہ وہ یا تو عدالتی حکم پورا کریں یا پھر ممکنہ کارروائی کے لیے ’’ذمہ دار‘‘ افسران کی فہرست فراہم کی جائے۔
تاہم وقفے کے بعد اٹارنی جنرل منیر اے ملک کی یقین دہانی پر حکومت کو دو دن کی مزید مہلت دے گئی۔ حکومت کے وکیل کا کہنا تھا ’’حتمی طور پر اس بارے میں پیش رفت ہوگی۔ انہیں کچھ وقت دیا جائے۔‘‘
سماعت کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو میں وفاقی وزیر خواجہ آصف کا مبینہ طور پر لاپتہ افراد کے بارے میں کہنا تھا۔
’’میں ان کے گناہ یا بے گناہی پر کون ہوتا ہوں تبصرہ کرنے والا۔ یہ تو فیصلہ عدالت نے کرنا ہے۔ جنھوں نے انہیں اٹھایا ہے ان کے پاس ہو گا جواز اس عمل کا۔ لیکن ہم چاہتے ہیں کہ وہ جواز قانونی ہو۔ وہ جواز ماوارئے قانون یا آئین نا ہو۔‘‘
عدالتِ عظمیٰ کے مطابق گزشتہ تقریباً دو سال سے یہ مقدمہ زیر سماعت ہے اور اس دوران حکومت کے وکیل نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ مجموعی طور پر 35 لاپتہ افراد میں سے دو مشتبہ شدت پسند ملک کے شمال مغربی علاقے میں قائم ایک تفتیشی مرکز میں اپنی طبعی موت مر چکے ہیں۔
ملک کے شمال مغربی حصے میں جبری گمشدگیوں کا معاملہ اس وقت شروع ہوا جب حکومت کی طرف سے القاعدہ سے منسلک شدت پسندوں کے خلاف وہاں کارروائیاں شروع ہوئیں۔ ان کے رشتہ داروں کا دعویٰ ہے کہ خفیہ اداروں نے انھیں شدت پسندوں سے رابطوں کے شبہ میں اپنی تحویل میں لے رکھا ہے۔
سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل راجہ ارشاد بھی لاپتہ افراد کے ایک اور مقدمے میں خفیہ اداروں کی طرف سے کیسں کی پیروی کررہے ہیں۔ مشتبہ افراد کو عدالت میں پیش نا کرنے یا اداروں کی ہچکچاہٹ کے بارے میں وہ کہتے ہیں۔
’’ان کا اعتماد اس عدالتی نظام پر نہیں ہے۔ جتنے ہائی پرفائل دہشت گرد پکڑے گئے نا تو ان کے خلاف کوئی گواہی دیتا ہے اور نا ہی کوئی کورٹ انہیں مجرم قرار دینے کی جرات کر سکتی ہے۔ کیونکہ جیلوں کو توڑ کر وہ نکال دیے جاتے ہیں۔ پھر ججوں کو اہنی جان کا خطرہ ہے تو اس لیے وہ انہیں اپنے پاس رکھتے ہیں۔‘‘
راجہ ارشاد کا کہنا تھا کہ لاپتہ مشتبہ افراد کے ان کے بقول پیچیدہ معاملے کے حل کے لیے سول اور ملٹری اداروں کے درمیان اعلیٰ سطحی مشاورت عمل نا گزیر ہے جس میں اس بارے میں پائے جانے والے خدشات اور تحفظات کو دور کیا جاسکے۔
ایڈیشنل سیکرٹری عارف نذیر نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کے سامنے پیش ہو کر بتایا کہ مبینہ طور پر 33 لاپتہ افراد کی تلاش ابھی بھی جاری ہے جس میں کچھ وقت لگے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ دو مشتبہ افراد فوج کے بحالی مراکز میں مقرر وقت گزارنے کے بعد اب ’’با عزت‘‘ روزگار کما رہے ہیں تاہم ان کے بقول جان کو لاحق خطرات کے باعث ان لوگوں کے نام اور پتے کو صیغہ راز میں رکھا جائے۔
سابق میجر جنرل عارف نذیر نے عدالت کو بتایا کہ سفری دستاویزات اور متعلقہ محکموں سے معلوم ہوا ہے کہ انہی کا ایک ساتھی کچھ عرصہ پہلے سعودی عرب جا چکا ہے۔
عدالت عظمیٰ کی طرف سے باقی لاپتہ مشتبہ افراد کی بازیابی کے مسلسل اصرار پر وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ معاملہ وزیراعظم اور اعلیٰ فوجی عہدیداروں کے سامنے اٹھایا ہے اور عدالت کو اس پر بہت کم عرصے میں پیش رفت کی یقین دہانی کرائی جاتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ صوبہ خیبرپختونخواہ میں 43 تفتیشی مراکز ہیں اور ان افراد کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنے کے لیے کچھ وقت درکار ہوگا۔
سماعت کے دوران مبینہ لاپتہ افراد کو پیش نا کرنے پر عدالت کی طرف سے ایک موقع پر ’’سخت‘‘ احکامات کا عندیہ بھی دیا گیا اور وزیر اور وزارت کے اعلیٰ عہدیدار کو دو گھنٹوں کی مہلت بھی دی گئی کہ وہ یا تو عدالتی حکم پورا کریں یا پھر ممکنہ کارروائی کے لیے ’’ذمہ دار‘‘ افسران کی فہرست فراہم کی جائے۔
تاہم وقفے کے بعد اٹارنی جنرل منیر اے ملک کی یقین دہانی پر حکومت کو دو دن کی مزید مہلت دے گئی۔ حکومت کے وکیل کا کہنا تھا ’’حتمی طور پر اس بارے میں پیش رفت ہوگی۔ انہیں کچھ وقت دیا جائے۔‘‘
سماعت کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو میں وفاقی وزیر خواجہ آصف کا مبینہ طور پر لاپتہ افراد کے بارے میں کہنا تھا۔
’’میں ان کے گناہ یا بے گناہی پر کون ہوتا ہوں تبصرہ کرنے والا۔ یہ تو فیصلہ عدالت نے کرنا ہے۔ جنھوں نے انہیں اٹھایا ہے ان کے پاس ہو گا جواز اس عمل کا۔ لیکن ہم چاہتے ہیں کہ وہ جواز قانونی ہو۔ وہ جواز ماوارئے قانون یا آئین نا ہو۔‘‘
عدالتِ عظمیٰ کے مطابق گزشتہ تقریباً دو سال سے یہ مقدمہ زیر سماعت ہے اور اس دوران حکومت کے وکیل نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ مجموعی طور پر 35 لاپتہ افراد میں سے دو مشتبہ شدت پسند ملک کے شمال مغربی علاقے میں قائم ایک تفتیشی مرکز میں اپنی طبعی موت مر چکے ہیں۔
ملک کے شمال مغربی حصے میں جبری گمشدگیوں کا معاملہ اس وقت شروع ہوا جب حکومت کی طرف سے القاعدہ سے منسلک شدت پسندوں کے خلاف وہاں کارروائیاں شروع ہوئیں۔ ان کے رشتہ داروں کا دعویٰ ہے کہ خفیہ اداروں نے انھیں شدت پسندوں سے رابطوں کے شبہ میں اپنی تحویل میں لے رکھا ہے۔
سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل راجہ ارشاد بھی لاپتہ افراد کے ایک اور مقدمے میں خفیہ اداروں کی طرف سے کیسں کی پیروی کررہے ہیں۔ مشتبہ افراد کو عدالت میں پیش نا کرنے یا اداروں کی ہچکچاہٹ کے بارے میں وہ کہتے ہیں۔
’’ان کا اعتماد اس عدالتی نظام پر نہیں ہے۔ جتنے ہائی پرفائل دہشت گرد پکڑے گئے نا تو ان کے خلاف کوئی گواہی دیتا ہے اور نا ہی کوئی کورٹ انہیں مجرم قرار دینے کی جرات کر سکتی ہے۔ کیونکہ جیلوں کو توڑ کر وہ نکال دیے جاتے ہیں۔ پھر ججوں کو اہنی جان کا خطرہ ہے تو اس لیے وہ انہیں اپنے پاس رکھتے ہیں۔‘‘
راجہ ارشاد کا کہنا تھا کہ لاپتہ مشتبہ افراد کے ان کے بقول پیچیدہ معاملے کے حل کے لیے سول اور ملٹری اداروں کے درمیان اعلیٰ سطحی مشاورت عمل نا گزیر ہے جس میں اس بارے میں پائے جانے والے خدشات اور تحفظات کو دور کیا جاسکے۔