اسلام آباد —
پاکستان کی ایک انسداد دہشت گردی کی عدالت نے بدھ کو وکلاء، تحقیقاتی و عدالتی افسران پر مشتمل آٹھ رکنی کمیشن کو آئندہ ہفتے ممبئی حملوں سے متعلق حکام سے جرح کے لیے بھارت جانے کی ہدایت جاری کی۔
2008 میں ہونے والے بھارتی شہر میں ہونے والے مہلک حملوں کے مبینہ معاون کاروں کے خلاف مقدمے کی بند کمرے میں سماعت کرتے وکلاء کے مطابق جج عتیق الرحمان نے کہا کہ قانونی تقاضوں کے پیش نظر دفاع اور استغاثہ کے وکلاء کا یہ دورہ ضروری ہے۔
اس سے پہلے استغاثہ نے عدالت کے سامنے وزارت داخلہ کی طرف سے جاری کردہ ایک نوٹیفیکیشن پیش کیا گیا جس میں کہا گیا کہ بھارتی حکومت کی رضا مندی پر اسلام آباد ایک ٹیم ممبئی کے لیے روانہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
سماعت کے بعد وکیل استغاثہ محمد اظہر چوہدری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ عدالتی کمیشن ممبئی حملے کے تحقیقاتی افسر اور حملہ آوروں کی لاشوں کا پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹروں کے علاوہ اس خاتوں مجسٹریٹ سے جرح کرے گا جس نے واحد زندہ بچ جانے والے حملہ آور اجمل قصاب کا بیان حلفی ریکارڈ کیا تھا۔
’’تسلیم کرنا یا نا کرنا تو عدالت کا کام ہے لیکن اگر یہ شواہد نا آئے تو ہمارا مقدمہ ہی ختم ہوجائے گا۔ پھر کچھ وہاں اور شواہد ہیں جوکہ یہاں کے ملزمان کے ملوث ہونے کو ثابت کرتے ہیں۔ ہم انہیں بھی دیکھیں گے۔‘‘
پاکستان کی طرف سے اس سے پہلے بھی یہ کمیشن بھارت گیا تھا مگر اس وقت اسے کسی متعلقہ افسر یا گواہ سے جرح کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ ممبئی حملوں کے فوراً بعد پاکستان میں نو افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں کالعدم تنظیم لشکر طیببہ کے ایک رہنما ذکی الرحمان لکھوی بھی شامل ہیں۔
ان افراد پر الزام ہے کہ انہوں نے ان حملوں کی سازش کی اور حملہ آوروں کی معاونت کی۔ گزشتہ سال بھارت نے اجمل قصاب کو پھانسی دے کر شہر پونا کی ایک جیل ہی دفن کردیا تھا۔
محمد اظہر چوہدری کے علاوہ دفاع کے وکیل ریاض اکرم چیمہ کا کہنا تھا کہ اجمل کی پھانسی سے پاکستان میں زیر حراست ملزمان کے خلاف مقدمات پر اثر پڑا ہے۔
’’قصاب کے بیان حلفی کی کوئی وقعت نہیں رہی۔ اب شواہد کیا رہ گئے ہیں؟ کچھ بھی نہیں۔ مجسٹریٹ کیا کہے گی کہ میں نے ایسے ریکارڈ کیا اور ویسے۔ دل کو جب جسم سے نکال دیا جائے تو میرے خیال میں صرف مردہ جسم رہ جاتا۔‘‘
پراسیکیوٹر جنرل کا کہنا تھا ’’یقیناً مقدمہ کمزور ہوا ہے اس میں کوئی شکل نہیں۔ بھارتی حکومت کو تھوڑا انتظار کرنا چاہیے تھا ہم ایویٹنس ریکارڈ کرلیتے پھر پھانسی پر عمل در آمد کر لیتے۔‘‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی تفتیش کاروں نے ملزمان کے خلاف تسلی بخش شواہد اکٹھے کیے ہیں اور بھارت سے واپسی کے بعد آئندہ چند ماہ میں پاکستان میں مقدمہ مکمل ہو جائے گا۔
2008 میں ممبئی میں ہونے والے شدت پسندوں کے حملوں میں 166 افراد ہلاک ہوئے جن چند امریکی اور دیگر ملکوں کے شہری بھی شامل تھے۔ بھارت نے اس کی ذمہ داری کالعدم لشکر طیبہ پر عائد کی تھی۔
پاکستان میں ان حملوں سے متعلق مقدمے کی سماعت 18 ستمبر تک ملتوی کردی گئی ہے۔
2008 میں ہونے والے بھارتی شہر میں ہونے والے مہلک حملوں کے مبینہ معاون کاروں کے خلاف مقدمے کی بند کمرے میں سماعت کرتے وکلاء کے مطابق جج عتیق الرحمان نے کہا کہ قانونی تقاضوں کے پیش نظر دفاع اور استغاثہ کے وکلاء کا یہ دورہ ضروری ہے۔
اس سے پہلے استغاثہ نے عدالت کے سامنے وزارت داخلہ کی طرف سے جاری کردہ ایک نوٹیفیکیشن پیش کیا گیا جس میں کہا گیا کہ بھارتی حکومت کی رضا مندی پر اسلام آباد ایک ٹیم ممبئی کے لیے روانہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
سماعت کے بعد وکیل استغاثہ محمد اظہر چوہدری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ عدالتی کمیشن ممبئی حملے کے تحقیقاتی افسر اور حملہ آوروں کی لاشوں کا پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹروں کے علاوہ اس خاتوں مجسٹریٹ سے جرح کرے گا جس نے واحد زندہ بچ جانے والے حملہ آور اجمل قصاب کا بیان حلفی ریکارڈ کیا تھا۔
’’تسلیم کرنا یا نا کرنا تو عدالت کا کام ہے لیکن اگر یہ شواہد نا آئے تو ہمارا مقدمہ ہی ختم ہوجائے گا۔ پھر کچھ وہاں اور شواہد ہیں جوکہ یہاں کے ملزمان کے ملوث ہونے کو ثابت کرتے ہیں۔ ہم انہیں بھی دیکھیں گے۔‘‘
پاکستان کی طرف سے اس سے پہلے بھی یہ کمیشن بھارت گیا تھا مگر اس وقت اسے کسی متعلقہ افسر یا گواہ سے جرح کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ ممبئی حملوں کے فوراً بعد پاکستان میں نو افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں کالعدم تنظیم لشکر طیببہ کے ایک رہنما ذکی الرحمان لکھوی بھی شامل ہیں۔
ان افراد پر الزام ہے کہ انہوں نے ان حملوں کی سازش کی اور حملہ آوروں کی معاونت کی۔ گزشتہ سال بھارت نے اجمل قصاب کو پھانسی دے کر شہر پونا کی ایک جیل ہی دفن کردیا تھا۔
محمد اظہر چوہدری کے علاوہ دفاع کے وکیل ریاض اکرم چیمہ کا کہنا تھا کہ اجمل کی پھانسی سے پاکستان میں زیر حراست ملزمان کے خلاف مقدمات پر اثر پڑا ہے۔
’’قصاب کے بیان حلفی کی کوئی وقعت نہیں رہی۔ اب شواہد کیا رہ گئے ہیں؟ کچھ بھی نہیں۔ مجسٹریٹ کیا کہے گی کہ میں نے ایسے ریکارڈ کیا اور ویسے۔ دل کو جب جسم سے نکال دیا جائے تو میرے خیال میں صرف مردہ جسم رہ جاتا۔‘‘
پراسیکیوٹر جنرل کا کہنا تھا ’’یقیناً مقدمہ کمزور ہوا ہے اس میں کوئی شکل نہیں۔ بھارتی حکومت کو تھوڑا انتظار کرنا چاہیے تھا ہم ایویٹنس ریکارڈ کرلیتے پھر پھانسی پر عمل در آمد کر لیتے۔‘‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی تفتیش کاروں نے ملزمان کے خلاف تسلی بخش شواہد اکٹھے کیے ہیں اور بھارت سے واپسی کے بعد آئندہ چند ماہ میں پاکستان میں مقدمہ مکمل ہو جائے گا۔
2008 میں ممبئی میں ہونے والے شدت پسندوں کے حملوں میں 166 افراد ہلاک ہوئے جن چند امریکی اور دیگر ملکوں کے شہری بھی شامل تھے۔ بھارت نے اس کی ذمہ داری کالعدم لشکر طیبہ پر عائد کی تھی۔
پاکستان میں ان حملوں سے متعلق مقدمے کی سماعت 18 ستمبر تک ملتوی کردی گئی ہے۔