اسلام آباد —
ملک میں بلدیاتی انتخابات کی تاریخوں میں توسیع کے لیے الیکشن کمیشن کے سینئیر عہدیداروں کے مطابق ایک بار پھر سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ میں پیش کی جانے والی درخواست میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ صوبائی حکومتیں اور دیگر متعلقہ سرکاری محکمے تیار نہیں کہ اس بڑے پیمانے پر انتخابی عمل کو مکمل کریں۔
عہدیداروں کا کہنا تھا کہ عدالت سے رواں سال انتخابات کروانے کے اپنے فیصلے پر نظرثانی کی استدعا کی جائے گی۔
کمیشن کی طرف سے ایک ایسی ہی درخواست کو عدالت عظمیٰ کے رجسٹرار یہ اعتراض لگا کر مسترد کرچکے ہیں کہ یہ معاملہ طے ہوچکا ہے۔
الیکشن کمیشن کے ڈائریکٹر جنرل شیر افگن نے بلدیاتی انتخابات سے متعلق دشواریوں کے بارے میں کہنا تھا کہ تقریباً 42 کروڑ بیلٹ پیپرز کی چھپائی، مخصوص سیاہی اور انتخابی فہرستوں کی تیاری کے لیےوقت درکار ہوگا۔
’’لاہور ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ پنجاب میں الیکشن جماعتی بنیادوں پر ہوں۔ اب انہیں اپنے رولز میں ترمیم کرنا ہوگی تو اس میں بھی وقت لگے گا۔‘‘
الیکشن کمیشن پہلے ہی عدالت عظمیٰ کو متعدد بار بتا چکا تھا کہ صوبوں کی طرف سے تمام ضروری اقدامات کے مکمل کرنے کے بعد اسے تقریباً چار ماہ بلدیاتی انتخابات کی تیاریوں کے لیے چاہیے ہوں گے۔
تاہم سپریم کورٹ نے اسے رد کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو صوبہ بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات رواں سال ہی کروانے کا حکم جاری کیا تھا جس پر صوبہ بلوچستان کے لیے 27 نومبر جبکہ سندھ اور پنجاب کے لیے 7 دسمبر کا انتخابی شیڈول جاری کیا گیا۔ صوبہ خیبر پختونخواہ میں اس متعلق قانون سازی میں تاخیر کے باعث وہاں کے لیے شیڈول جاری نہیں کیا گیا۔
ادھر قومی اسمبلی میں تمام سیاسی جماعتوں نے منگل کو ایک بار پھر رواں سال بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی مخالفت کرتے ہوئے ایک متفقہ قرارداد منظور کی اور مطالبہ کیا کہ یہ الیکشن آئندہ سال مارچ میں کروائے جائیں۔
وزیراعظم نواز شریف کے داماد اور حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے قانون ساز محمد صفدر کا کہنا تھا کہ شدت پسندوں سے مجوزہ مذاکرات کے تناظر میں موجودہ سیکورٹی صورتحال میں انتخابات ممکن نہیں۔
’’ملک میں امن قائم کرنا ضروری ہے۔ الیکشن مارچ میں ہو سکتے ہیں۔ ابھی انہوں نے الیکشن کا اعلان کردیا ہے۔ ابھی ناران میں کون کروا سکتا ہے جہاں آج ایک میٹر برف پڑی ہے۔ حالات ملک کے دیکھنے پڑتے ہیں اور حکومت وقت نے کروانے ہیں اور جو مناسب وقت وہ سمجھتی ہے اس میں کروا لینے چاہیئں۔‘‘
خیبرپختونخواہ کی حمکران جماعت پاکستان تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی عائشہ گلالئے کا کہنا تھا کہ جلد بازی میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد اس پورے عمل کی شفافیت پر سمجھوتہ کرنے کے مترادف ہوگا۔
’’پانچ سال کی تیاری کے بعد 11 مئی کے انتخابات اتنے برے طریقے سے ہوئے تو اتنے کم ٹائم میں ووٹر لسٹیں بننی ہیں۔ لوگوں کو اپنے حلقوں کا پتا تک نہیں ہے تو وہ انتخابی مہم کیسے چلائیں گے۔ تو الیکشن کروانا تو صرف مقصد نہیں ہے بلکہ شفاف طریقے سے کروانا مقصد ہے۔‘‘
بعض قانون سازوں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ بلدیاتی نظام نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی اور جمہوری اقدار کی پختگی کے لیے اہم ترین نظام ہے لیکن انتخابی عمل میں کسی قسم کی خامی یا دھاندلی پاکستان میں بڑے پیمانے پر سیاسی بحران کا سبب بن سکتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ میں پیش کی جانے والی درخواست میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ صوبائی حکومتیں اور دیگر متعلقہ سرکاری محکمے تیار نہیں کہ اس بڑے پیمانے پر انتخابی عمل کو مکمل کریں۔
عہدیداروں کا کہنا تھا کہ عدالت سے رواں سال انتخابات کروانے کے اپنے فیصلے پر نظرثانی کی استدعا کی جائے گی۔
کمیشن کی طرف سے ایک ایسی ہی درخواست کو عدالت عظمیٰ کے رجسٹرار یہ اعتراض لگا کر مسترد کرچکے ہیں کہ یہ معاملہ طے ہوچکا ہے۔
الیکشن کمیشن کے ڈائریکٹر جنرل شیر افگن نے بلدیاتی انتخابات سے متعلق دشواریوں کے بارے میں کہنا تھا کہ تقریباً 42 کروڑ بیلٹ پیپرز کی چھپائی، مخصوص سیاہی اور انتخابی فہرستوں کی تیاری کے لیےوقت درکار ہوگا۔
’’لاہور ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ پنجاب میں الیکشن جماعتی بنیادوں پر ہوں۔ اب انہیں اپنے رولز میں ترمیم کرنا ہوگی تو اس میں بھی وقت لگے گا۔‘‘
الیکشن کمیشن پہلے ہی عدالت عظمیٰ کو متعدد بار بتا چکا تھا کہ صوبوں کی طرف سے تمام ضروری اقدامات کے مکمل کرنے کے بعد اسے تقریباً چار ماہ بلدیاتی انتخابات کی تیاریوں کے لیے چاہیے ہوں گے۔
تاہم سپریم کورٹ نے اسے رد کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو صوبہ بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات رواں سال ہی کروانے کا حکم جاری کیا تھا جس پر صوبہ بلوچستان کے لیے 27 نومبر جبکہ سندھ اور پنجاب کے لیے 7 دسمبر کا انتخابی شیڈول جاری کیا گیا۔ صوبہ خیبر پختونخواہ میں اس متعلق قانون سازی میں تاخیر کے باعث وہاں کے لیے شیڈول جاری نہیں کیا گیا۔
ادھر قومی اسمبلی میں تمام سیاسی جماعتوں نے منگل کو ایک بار پھر رواں سال بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی مخالفت کرتے ہوئے ایک متفقہ قرارداد منظور کی اور مطالبہ کیا کہ یہ الیکشن آئندہ سال مارچ میں کروائے جائیں۔
وزیراعظم نواز شریف کے داماد اور حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے قانون ساز محمد صفدر کا کہنا تھا کہ شدت پسندوں سے مجوزہ مذاکرات کے تناظر میں موجودہ سیکورٹی صورتحال میں انتخابات ممکن نہیں۔
’’ملک میں امن قائم کرنا ضروری ہے۔ الیکشن مارچ میں ہو سکتے ہیں۔ ابھی انہوں نے الیکشن کا اعلان کردیا ہے۔ ابھی ناران میں کون کروا سکتا ہے جہاں آج ایک میٹر برف پڑی ہے۔ حالات ملک کے دیکھنے پڑتے ہیں اور حکومت وقت نے کروانے ہیں اور جو مناسب وقت وہ سمجھتی ہے اس میں کروا لینے چاہیئں۔‘‘
خیبرپختونخواہ کی حمکران جماعت پاکستان تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی عائشہ گلالئے کا کہنا تھا کہ جلد بازی میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد اس پورے عمل کی شفافیت پر سمجھوتہ کرنے کے مترادف ہوگا۔
’’پانچ سال کی تیاری کے بعد 11 مئی کے انتخابات اتنے برے طریقے سے ہوئے تو اتنے کم ٹائم میں ووٹر لسٹیں بننی ہیں۔ لوگوں کو اپنے حلقوں کا پتا تک نہیں ہے تو وہ انتخابی مہم کیسے چلائیں گے۔ تو الیکشن کروانا تو صرف مقصد نہیں ہے بلکہ شفاف طریقے سے کروانا مقصد ہے۔‘‘
بعض قانون سازوں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ بلدیاتی نظام نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی اور جمہوری اقدار کی پختگی کے لیے اہم ترین نظام ہے لیکن انتخابی عمل میں کسی قسم کی خامی یا دھاندلی پاکستان میں بڑے پیمانے پر سیاسی بحران کا سبب بن سکتا ہے۔