اسلام آباد —
پاکستان کی حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما اور وفاقی وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف عدالتی کارروائی کا فوج سے کوئی تعلق نہیں۔
ہفتہ کو ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں احسن اقبال کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کی ایک اپنی سیاسی جماعت ہے اور اُن کے خلاف کی جانے والی عدالتی کارروائی کو کسی طور بھی فوج سے منسلک کرنا درست نہیں۔
’’پرویز مشرف کی ٹیم اور وکلا ملک میں جو بحران پیدا کرنا چاہتے ہیں، یہ بدترین سازش ہے۔ پاکستان اس قسم کے کھیلوں کو متحمل نہیں ہو سکتا۔ مشرف کے مقدمے کا پاکستان کی فوج سے کوئی تعلق نہیں ہے، وہ ایک سیاستدان ہیں، وہ آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ ہیں۔‘‘
احسن اقبال کا کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کے بارے میں کہنا تھا کہ حکومت نے یہ راستہ ملک میں قیام امن کے لیے اختیار کیا ہے۔
وفاقی وزیر کا سابق فوجی صدر سے متعلق یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا جب اس معاملے پر فوج اور حکومت کے درمیان اختلافات کی قیاس آرائیاں بھی کی جا رہی ہیں۔
رواں ہفتے کے اوائل میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے ایک بیان کہا تھا کہ ملک اندرونی و بیرون چینلجوں سے دوچار ہے اور فوج تمام اداروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور اپنے ادارے کے وقار کا بھی ہر حال میں تحفظ کرے گی۔
اس بیان پر مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف پر غداری سے متعلق مقدمے میں فرد جرم عائد کیے جانے بعد ہونے والی تنقید کے جواب میں دیا گیا۔
تاہم وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید ان قیاس آرائیوں کو رد کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ حکومت اور فوج کا اس معاملے پر کوئی اختلاف نہیں۔
31 مارچ کو غداری سے متعلق مقدمے کی سماعت کرنے والی تین رکنی خصوصی عدالت میں پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی پر فرد جرم عائد کی گئی، لیکن اُنھوں نے صحت جرم سے انکار کیا۔
ملک میں 2007 میں ایمرجنسی کا نفاذ اور آئین کو معطل کرنے پر پرویز مشرف کے خلاف غداری مقدمہ چلانے کے لیے خصوصی عدالت قائم کی گئی تھی۔
پرویز مشرف ملک کے پہلے فوجی صدر ہیں جن کو اس نوعیت کے مقدمے کا سامنا ہے۔
سابق صدر کے حامی اور وکلا کا الزام ہے کہ اس مقدمے کی بنیاد سیاسی انتقام ہے تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ یہ مقدمہ ملک کی اعلٰی ترین عدالت کے ایک فیصلے کی روشنی میں چلایا جا رہا ہے۔
جب کہ وفاقی وزار کہہ چکے ہیں عدالت جو بھی فیصلہ کرے گی وہ سب کے لیے قابل قبول ہو گا۔
ہفتہ کو ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں احسن اقبال کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کی ایک اپنی سیاسی جماعت ہے اور اُن کے خلاف کی جانے والی عدالتی کارروائی کو کسی طور بھی فوج سے منسلک کرنا درست نہیں۔
’’پرویز مشرف کی ٹیم اور وکلا ملک میں جو بحران پیدا کرنا چاہتے ہیں، یہ بدترین سازش ہے۔ پاکستان اس قسم کے کھیلوں کو متحمل نہیں ہو سکتا۔ مشرف کے مقدمے کا پاکستان کی فوج سے کوئی تعلق نہیں ہے، وہ ایک سیاستدان ہیں، وہ آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ ہیں۔‘‘
احسن اقبال کا کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کے بارے میں کہنا تھا کہ حکومت نے یہ راستہ ملک میں قیام امن کے لیے اختیار کیا ہے۔
وفاقی وزیر کا سابق فوجی صدر سے متعلق یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا جب اس معاملے پر فوج اور حکومت کے درمیان اختلافات کی قیاس آرائیاں بھی کی جا رہی ہیں۔
رواں ہفتے کے اوائل میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے ایک بیان کہا تھا کہ ملک اندرونی و بیرون چینلجوں سے دوچار ہے اور فوج تمام اداروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور اپنے ادارے کے وقار کا بھی ہر حال میں تحفظ کرے گی۔
اس بیان پر مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف پر غداری سے متعلق مقدمے میں فرد جرم عائد کیے جانے بعد ہونے والی تنقید کے جواب میں دیا گیا۔
تاہم وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید ان قیاس آرائیوں کو رد کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ حکومت اور فوج کا اس معاملے پر کوئی اختلاف نہیں۔
31 مارچ کو غداری سے متعلق مقدمے کی سماعت کرنے والی تین رکنی خصوصی عدالت میں پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی پر فرد جرم عائد کی گئی، لیکن اُنھوں نے صحت جرم سے انکار کیا۔
ملک میں 2007 میں ایمرجنسی کا نفاذ اور آئین کو معطل کرنے پر پرویز مشرف کے خلاف غداری مقدمہ چلانے کے لیے خصوصی عدالت قائم کی گئی تھی۔
پرویز مشرف ملک کے پہلے فوجی صدر ہیں جن کو اس نوعیت کے مقدمے کا سامنا ہے۔
سابق صدر کے حامی اور وکلا کا الزام ہے کہ اس مقدمے کی بنیاد سیاسی انتقام ہے تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ یہ مقدمہ ملک کی اعلٰی ترین عدالت کے ایک فیصلے کی روشنی میں چلایا جا رہا ہے۔
جب کہ وفاقی وزار کہہ چکے ہیں عدالت جو بھی فیصلہ کرے گی وہ سب کے لیے قابل قبول ہو گا۔