قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران مسلم لیگ (ن) کے راہنما سعد رفیق کی گرفتاری اور نیب کی کارروائیوں پر اپوزیشن نے حکومت کو بھرپور تنقید کا نشانہ بنایا جبکہ حکومتی ارکان نے نیب کی تمام کارروائیوں سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے اپوزیشن کو ملک میں لوٹ مار کا مورد الزام ٹھہرایا۔
حکومتی وزیر مراد سعید نے دعویٰ کیا ہے کہ مسلم لیگ(ن) کے سات ارکان نے ان سے این آر او مانگا لیکن کرپشن کرنے والوں کو وہ کبھی نہیں چھوڑیں گے۔
ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا تو سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے سعد رفیق کی گرفتاری کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کو دبانے کے لیے نیب کو استعمال کیا جا رہا ہے، اگر سعد رفیق کی گرفتاری سے حکومت کا تعلق نہیں تو پھر کون یہ کروا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جس معیار پر سعد رفیق، شہباز شریف اور باقی اپوزیشن ارکان کے خلاف تحقیقات ہورہی ہیں اگر حکومتی ارکان کے خلاف ہوں تو 70 فیصد ارکان جیل میں ہوں گے۔
پیپلز پارٹی کے راہنما نوید قمر نے کہا جس طرح سے اپوزیشن ارکان اسمبلی کی گرفتاریاں ہورہی ہیں لگتا ہے قومی اسمبلی کے اگلے اجلاس اڈیالہ جیل میں کرنا پڑیں گے۔ جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں بلاول بھٹو زرداری سے اس وقت کے سوالات کیے جا رہے ہیں جب وہ ایک سال کے تھے۔ حکومت کا مقصد صرف اپوزیشن پر کیچڑ اچھالنا ہے۔
وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اس موقت پر تقریر کرتے ہوئے مریم اورنگزیب کے خلاف نیب تحقیقات کی طرف اشارہ کیا اور ان کی متوقع گرفتاری کا عندیہ بھی دے دیا۔ فواد چوہدری نے مریم اورنگزیب سے کہا کہ آپ نے بھی ابھی جانا ہے حوصلہ رکھیں۔
فواد چوہدری نے اپوزیشن کی تنقید پر کہا کہ ان کو اپنے کرتوتوں کا اچھی طرح پتا ہے۔ حکومت نیب کی کارروائی نہیں رکے گی۔ موجودہ چیئرمین نیب کو مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے تعینات کیا تھا۔ ہم نے کسی شخص کو بھرتی نہیں کیا۔ لہٰذا اس حوالے سے ہم پر الزامات عائد نہیں کیے جا سکتے۔
اجلاس میں ایک دوسرے پر لفظی بمباری جاری رہی اور وزیر مملکت مراد سعید نے کہا کہ کرپشن کرنے والوں کو ڈی چوک میں پھانسی دینے کی قرار داد منظور کریں اور عمل درآمد کریں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ن لیگ کے 7 لوگوں نے مجھ سے این آر او مانگا لیکن ان پر کیسز چلیں گے۔ سب سے پہلے جو شخص این آر او کے لیے میرے پاس آیا وہ اس ایوان میں موجود ہے۔ اپوزیشن کی طرف سے بار بار کہنے کے باوجود انہوں نے اس شخص کا نام نہیں بتایا۔
اپوزیشن اور حکومت کی اس لڑائی پر پیپلز پارٹی کے پرویز اشرف نے کہا کہ ماضی میں ہم ن لیگ کے خلاف ایسے الزام لگاتے تھے جو آج تحریک انصاف والے ہم دونوں پر لگا رہے ہیں۔ لیکن اس سے فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ تین ماہ گزرنے کے بعد قائمه کمیٹیاں تشکیل نہ دیے جانے کی وجہ سے اب تک کوئی قانون سازی نہیں ہو سکی۔ ہم سب عوام کو کیا جواب دیں گے۔
اسمبلی میں تمام دن اپوزیشن اور حکومتی ارکان اکثر محض ایک دوسرے پر الزامات ہی عائد کرتے نظر آتے ہیں۔ اپوزیشن ارکان نیب اور حکومت کے گٹھ جوڑ کا کہتے ہیں تو حکومت ماضی کی کرپشن قصے اور پانامہ اسیکنڈل کی چیخ و پکار کرتی ہے۔ اس صورت حال میں قانون سازی نہ ہونے کے برابر ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس بھی بدھ کے روز پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا جس میں ایک مرتبہ پھر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین قائد حزب اختلاف کو بنانے پر اتفاق ہوا اور سعد رفیق کی گرفتاری کے بعد ان کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔