پچھلے سال کراچی میں جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے نوجوان نقیب اللہ محسود کی پہلی برسی کے موقع پر پشتون تحفظ تحریک کے زیر اہتمام خیبر پختون خوا کے جنوبی شہر ٹانک میں 13 جنوری کو ایک ریلی منعقد ہو گی۔
پشتون تحفظ تحریک کے مقامی راہنماؤں نے ضلعی انتظامیہ سے اجازت لینے کے لئے ایک درخواست جمع کر دی ہے۔
ایک روز قبل پشتون تحفظ تحریک کے زیر اہتمام خیبر پختونخوا کے ایک اور جنوبی شہر ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی ایک ریلی منعقد ہوئی تھی جن میں دیگر راہنماؤں اور منظور پشتین نے بھی خطاب کیا تھا۔
پشتون تحفظ تحریک کے ٹانک سے تعلق رکھنے والے ایک راہنما حمید اللہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انہوں نے ٹاؤن ہال میں تقریب کے لیے درخواست دے دی ہے مگر ابھی تک اجازت نامہ نہیں ملا اور انتظامی عہدیدار ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ ضلعی انتظامیہ اجازت نہ بھی دے تب بھی ٹانک میں تقریب منعقد کی جائے گی۔
ضلعی انتظامیہ کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ پشتون تخفظ تحریک کی درخواست پر ابھی تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ اطلاعات کے مطابق اجازت کا فیصلہ صوبائی حکومت اور نفاذ قانون کے اداروں سے مشاورت کے بعد کیا جائے گا۔
جنوبی وزیرستان کے محسود قبیلے کے نوجوان نقیب اللہ محسود پچھلے سال 13 جنوری کو کراچی میں ایک جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک ہو گئے تھے۔
اس واقعہ کے خلاف ملک کے طول وعرض میں پختونوں اور تمام سیاسی جماعتوں کے راہنماؤں اور کارکنوں نے احتجاج کیا تھا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے اس کا نوٹس لیتے ہوئے ہلاکت میں ملوث پولیس کے ایک اعلیٰ عہدے دار راؤ انوار سمیت متعدد اہل کاورں کی گرفتاری اور ان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا تھا۔
نقیب اللہ محسود کی تجہیز و تدفین ان کے آبائی علاقے جنوبی وزیرستان میں ہوئی جس کے بعد جنوبی اور شمالی وزیرستان، خیبر پختون خوا، بلوچستان، کراچی اور ملک کے دیگر علاقوں میں آباد پختونوں نے احتجاجی مظاہرے شروع کر دیے۔ اسی دوران پختونوں کو درپیش انتظامی اور سیکیورٹی کے مسائل حل کرنے کے لئے پشتون تحفظ تحریک کے قیام عمل میں لایا گیا۔
پشتون تحفظ تحریک کی مخالفت
پشتون تحفظ تحریک کے قیام کے بعد سرکاری اور سیاسی سطح پر اس کی مخالفت شروع ہو گئی۔
عام انتخابات کے موقع پر کراچی، سوات، کوئٹہ، ڈیرہ اسماعیل خان، شمالی اور جنوبی وزیرستان کے مختلف علاقوں میں اس تحریک سے وابستہ افراد کے خلاف مقدمے درج ہوئے اور ان کی گرفتاریاں عمل میں آئیں۔
قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے راہنماؤں نے اپنے کارکنوں اور عہدیداروں کو پشتون تحفظ تحریک اور پارٹی میں کسی ایک کا انتخاب کرنے کی ہدایت کی۔ اسی بنیاد پر موجودہ قومی اسمبلی کے ممبر محسن داوڑ اور سابق ممبر پارلیمنٹ افراسیاب خٹک اور بشریٰ گوہر کی پارٹی رکینت معطل کر دی گئی۔
جولائی 2018ء کے عام انتخابات میں پشتون تحفظ تحریک نے بحیثیت پارٹی حصہ نہیں لیا تاہم اس کے چھے اہم رہنماؤں نے آزاد اور انفرادی حیثیت سے قومی اسمبلی کے نشستوں پر الیکشن لڑا۔ ان میں سے محسن داوڑ شمالی وزیرستان جب کہ علی وزیر جنوبی وزیرستان سے کامیاب ہو گئے۔
انتخابات کے بعد حکومت سازی میں محسن داوڑ اور علی وزیر نے حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کا ساتھ دیا۔ مگر اب وہ حکومت سے ناراض دکھائی دیتے ہیں۔ محسن داوڑ کا کہنا ہے کہ وہ دونوں آزاد حیثیت سے کامیاب ہوئے ہیں اور آزاد حیثیت سے وہ پارلیمان کے اندر اور باہر کردار ادا کرتے ہیں۔
علی وزیر اور محسن داوڑ کے خلاف ملک کے مختلف علاقوں میں حکومت اور ریاستی اداروں کے خلاف تقاریر کرنے کے الزام میں مقدمات درج ہیں۔ گزشتہ نومبر میں محسن داوڑ اور علی وزیر کو ان مقدمات کی بنا پر ملک باہر جانے سے روک دیا گیا تھا اور بعد میں ان کے نام ایگزیکٹ کنٹرول لسٹ (ECL) پر ڈال دئیے گئے تھے۔
ٹانک کی اہمیت
خیبر پختونخوا کے جنوبی شہروں ٹانک، ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں، ہنگو اور کوہاٹ کو ملحقہ سابقہ قبائلی علاقوں کی حیثیت سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ ان شہروں میں ملحقہ اورکزئی، کرم، شمالی اور جنوبی وزیرستان کے علاوہ فرئینٹر ریجنز کے لاکھوں لوگ رہائش پذیر ہیں۔
ٹانک میں زیادہ تر جنوبی وزیرستان کے محسود قبیلے کے افراد آباد ہیں جس کی وجہ سے ٹانک کو محسود قبیلے کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ ڈیرہ اسماعیل خان میں محسود اور احمد زئی وزیر قبائل کے ہزاروں گھرانے موجود ہیں۔ اسی طرح دونوں علاقوں میں فرنٹیئر ریجنز جنڈولہ سے تعلق رکھنے والے بٹینی قبائل بھی آباد ہیں۔
نقیب اللہ محسود کے والد کا برسی منانے کا اعلان
نقیب اللہ محسود کے والد جان محمد نے پچھلے دسمبر کے آخر میں بیٹے کی پہلی برسی آبائی علاقے جنوبی وزیرستان میں منانے کا اعلان کر رکھا ہے، مگر ابھی تک اس سلسلے میں اُنہوں نے کسی قسم کے شیڈول کا اعلان نہیں کیا ہے۔
نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کا مقدمہ
نقیب اللہ محسود کے قتل کا مقدمہ کراچی کے ایک عدالت میں زیرالتواء ہے۔ اس مقدمے میں کراچی پولیس کے اعلیٰ عہدیدار راؤ انوار کے علاوہ کئی اور پولیس اہل کار بھی شامل ہیں۔ راؤ انوار جو پہلے مفرور تھے، گرفتاری پیش کرنے کے بعد ان کے گھر کو ہی سب جیل بنا دیا گیا۔ راؤ انوار سمیت دس ملزمان کے خلاف ضمانت کی درخواست پر سندھ ہائی کورٹ فیصلہ محفوظ کر چکی ہے۔