پاکستان کی پارلیمان کے ایوانِ زیریں یعنی قومی اسمبلی نے امریکہ کی جنوبی ایشیا سے متعلق نئی پالیسی اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے پاکستان پر دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کی موجودگی کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے ایک متفقہ قرارداد منظور کرلی ہے۔
امریکی انتظامیہ کی خطے سے متعلق نئی پالیسی پر بدھ کو قومی اسمبلی میں بحث کے بعد وزیر خارجہ خواجہ آصف نے ایوان میں قرارداد پیش کی، جس میں حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ امریکہ سے کسی بھی وفد کی پاکستان آمد یا پاکستانی عہدیداروں کے دورۂ امریکہ کی منسوخی پر غور کرے۔
قرار داد میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومتِ پاکستان امریکہ سے تعاون، خاص طور پر زمینی اور فضائی راہداریوں کی معطلی پر بھی غور کرے۔
تاہم متفقہ طور پر منظور کردہ قرارداد میں ایوان نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ پاکستان باہمی احترام کے اصول پر امریکہ سے تعمیری رابطے کا خواہاں ہے۔
قرارداد میں افغانستان میں تعینات بین الاقوامی افواج کے امریکی کمانڈر جنرل جان نکلسن کے اس بیان کو بھی مسترد کیا گیا ہے جس میں اُنھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ کوئٹہ اور پشاور میں افغان طالبان کی شوریٰ موجود ہے۔
قومی اسمبلی سے منظور کی گئی قرار داد میں پاکستان سے ملحق افغان صوبوں میں داعش اور دیگر شدت پسند تنظیموں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے افغانستان، امریکہ اور اس کی اتحادی فورسز سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کریں۔
دوسری جانب قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بھی بدھ کو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیرِ قیادت ہوا جس میں امریکہ کی جنوبی ایشیا سے متعلق نئی پالیسی اور اس سے متعلق پاکستان کی جوابی حکمتِ عملی پر غور کیا گیا۔
ایک ہفتے سے کم وقت میں ملک کی اعلیٰ سیاسی و عسکری قیادت پر مشتمل قومی سلامتی کمیٹی کا یہ دوسرا اجلاس تھا۔
اس سے قبل اس کمیٹی کا اجلاس 24 اگست کو ہوا تھا، جس کے بعد جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کو قصور وار ٹھہرا کر افغانستان کو مستحکم بنانے میں مدد نہیں مل سکتی۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طویل مشاورتی عمل کے بعد گزشتہ ہفتے افغانستان اور خطے سے متعلق اپنی انتظامیہ کی نئی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ پاکستان میں دہشت گرد تنظیموں کے محفوظ ٹھکانوں پر مزید خاموش نہیں رہ سکتا۔
صدر ٹرمپ نے یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ وہ تنظیمیں جو امریکی شہریوں کے لیے خطرہ ہیں، پاکستان اُن کو اپنی سر زمین پر پناہ دیتا آیا ہے۔
قومی اسملبی میں بحث کے دوران مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سابق وزیرِ داخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ صرف قومی اسمبلی نہیں بلکہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کو یک زبان ہو کر واضح بیان دینا چاہیے۔
’’ہمیں یہ تاثر نہیں دینا چاہیے کہ خدا نخواستہ کوئی جنگ چھڑنے لگی ہے، مگر دوسری طرف ہمیں بڑی سنجیدگی سے اس بیان کو لینا چاہیے۔‘‘
چوہدری نثار نے یہ بھی کہا کہ پاکستان امریکہ سمیت عالمی برداری سے تعاون چاہتا ہے۔
’’ہم بالکل محاذ آرائی نہیں چاہتے، ہم کوئی لڑائی نہیں چاہتے۔۔۔ ہم تعاون چاہتے ہیں تمام بیرونی طاقتوں سے بشمول امریکہ کے۔ افغانستان میں امن امریکہ سے زیادہ پاکستان کے مفاد میں ہے، مگر کوئی پاکستان سے یک طرفہ تعاون کی توقع نہ کرے۔‘‘
ملک کے سابق وزیرِ خارجہ اور حزبِ اختلاف کی جماعت تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے ایوان میں جاری بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ امریکہ سے الگ ہونے کی پالیسی مسئلے کا حل نہیں۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان کو امریکہ سے رابطے میں رہنا چاہیے اور ’’دلائل کے ساتھ اُن سے بات کرنی چاہیے۔‘‘
قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف خورشید شاہ نے تجویز دی کہ عید کے بعد پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر اس معاملے پر تفصیلی بحث کر کے ایک مؤثر قرارداد منظور کی جانی چاہیے۔
اُن کا کہنا تھا کہ گزشتہ چار سال کی خامیوں کو دور کرتے ہوئے حکومت کو موثر سفارت کاری پر توجہ دینی چاہیے۔