رسائی کے لنکس

پاکستانی علاقوں میں 75 برسوں کے دوران 10بڑی قدرتی آفات


پاکستان ان دنوں جس سیلاب میں گھرا ہے اسے نیشنل ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے ملکی تاریخ کی بدترین قدرتی آفت قرار دیا ہے ۔ اتھارٹی کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرلر ریٹائرڈ ندیم احمدکے مطابق موجودہ سیلاب قیام پاکستان کے بعد سے اب تک آنے والی آفات میں سب سے بدتر آفت ہے ۔

پاکستانی سرزمین کو قیام وطن سے پہلے بھی کئی قدرتی آفات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اگر خطّے کی گزشتہ 75برسوں کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو سن انیس سو پینتیس سے لیکر دوہزار دس تک پاکستان کودس بڑی آفات کا سامنا کرنا پڑا۔ یورپی ممالک کے زیر انتظام چلنے والے ایک خبررساں ادارے آئی آر آئی این کے مطابق ان دس بدترین ا ٓفات کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:

کوئٹہ : 1935 کا زلزلہ

انیس سو پینتیس میں پاکستان برٹش انڈیا کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ اس کے مشرقی صوبے بلوچستان میں ریکٹر اسکیل پر سات اعشاریہ سات کی طاقت کا زلزلہ آیا جس نے کوئٹہ کو بری طرح تہس نہس کردیا اور ساٹھ ہزارافراد لقمہ اجل بن گئے۔ یہ جنوبی ایشیاء کا اس وقت کا خطرناک ترین زلزلہ تھا۔ زلزلے کا مرکز کوئٹہ سے 153کلومیٹر دور جنوب مغرب میں تھا۔

1945 کا بھیانک زلزلہ

اٹھائیس نومبر1945ء کو بلوچستان میں ہی دوسرا بڑا زلزلہ آیا۔ ریکٹر اسکیل پر اس کی شدت سات اعشاریہ آٹھ ریکارڈ کی گئی۔ اس کا مرکز پسنی کے قریب تھا۔ زلزلے کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلی۔ سمندر کی لہریں 40 فٹ کی بلندی تک اٹھیں۔ اس کے نتیجے میں چار ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔

1950 کا سیلاب

1945 کے زلزلے کے ٹھیک پانچ سال بعد یعنی 1950 میں ملک میں زبردست سیلاب آیاجس کے نتیجے میں تقریبا ًدوہزار نو سو لوگ ہلاک ہوگئے۔ دریائے راوی میں زبردست طغیانی کے باعث سب سے زیادہ نقصان لاہور کو ہوا جبکہ جنوبی پنجاب کے کئی شہر بھی بری طرح متاثر ہوئے۔ سیلاب ایک لاکھ گھروں کو اپنے ساتھ بہا کر لے گیاجس سے ان مکانات میں رہنے والے نو لاکھ افراد بے گھر ہوگئے۔

1970 کا سیلاب: جس میں مشرقی پاکستان ہمیشہ کے لئے بہہ گیا

بارہ نومبر 1970ء کو مشرقی پاکستان کی حدود میں شدید ترین سمندری طوفان آیا۔ طوفان کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں پانچ لاکھ افراد ہلاک ہوگئے۔ زخمیوں کی تعداد بھی لاکھوں میں تھی۔ اسے نہ صرف اس وقت کی سب سے بڑی قدرتی آفت قراردیا گیابلکہ اس کے نتیجے کے طور ملک میں بدامنی پھیل گئی۔ پھر یہی بدامنی بڑھتے بڑھتے خانہ جنگی کا روپ دھار گئی اور بلاآخر یہی طوفان مشرقی پاکستان کی ملک سے علیحدگی پر منتج ہوا۔

ہنزہ میں زلزلہ

اٹھائس دسمبر 1974ء کوملک کے شمالی علاقے ہنزہ میں زلزلہ آیا جس کی شدت چھ اعشاریہ دو ریکارڈ کی گئی ۔ زلزلے سے ہزارہ اور سوات کے اضلاع کو بھی نقصان پہنچا۔ پانچ ہزار تین سو افراد لقمہ اجل بن گئے، سترہ ہزار افراد زخمی اور مجموعی طور پر 97ہزار افراد متاثرہوئے۔ اس کے علاوہ مٹی کے تودے گرنے سے بھی بڑے پیمانے پر اموات واقع ہوئیں۔

سن دوہزار کی قحط سالی

اس سال آنے والی قحط سالی سے بلوچستان میں بارہ لاکھ افراد بری طرح متاثر ہوئے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ان میں سے سو سے زائد افراد جسم میں پانی کی کمی کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ لاکھوں مویشی بھی قحط سالی کے سبب موت کی آغوش میں جاسوئے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان کا علاقہ نوشکی سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ بلاخر دس ماہ بعد ملکی تاریخ کی بد ترین قحط سالی ختم ہوئی۔

دوہزار پانچ کا زلزلہ

آٹھ اکتوبر 2005ء کی صبح سات اعشاریہ چھ کی شدت سے آنے والے زلزلے نے تاریخی تباہی پھیلائی۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق زلزلے سے 73 ہزار افراد ہلاک اور تین لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوگئے۔ زلزلے سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے وادی نیلم، ضلع باغ اور مانسہرہ سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ اس زلزلے سے اس قدر شدید تباہی پھیلی کے آج پانچ سال گزرجانے کے باوجود ان علاقوں میں تعمیر نو کا کام جاری ہے۔

سن دوہزار سات ، ایک اور سمندری طوفان

جولائی 2007ء میں ایک اور سمندری طوفان یمین نے بلوچستان میں 380 اور سندھ میں 250 افراد کو نگل لیا۔ ساحلی علاقوں میں آباد تین لاکھ پچاس ہزار افراد کو اس طوفان کے ہاتھوں بے گھر ہونا پڑا۔ مجموعی طور پر ڈیڑھ لاکھ افراد متاثرہوئے جبکہ دولاکھ مویشی موت کو گلے لگا بیٹھے۔

ہنزہ جھیل کی تباہی

رواں سال جنوری میں ضلع ہنزہ کے ایک گاوٴں عطاآباد میں زمینی تودے گرنے سے دریائے ہنزہ سے نکلنے والی ہنزہ جھیل پوری طرح تباہ ہوگئی ۔ زمینی تودے گرنے سے بیس افراد ہلاک ہوگئے جبکہ چالیس مکانات بہہ گئے۔ زمینی تودوں کے ملبے سے دریا پر بنے ڈیم کو سخت نقصان پہنچا جس سے زبردست سیلاب کا خطرہ پیدا ہوگیا۔ امکان ظاہر کیا جارہا تھا کہ ایسی صورت میں سیلاب آتا تو آس پاس کا تمام علاقہ زیر آب آجاتا اور بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کا نقصان ہوسکتا تھا تاہم وقت پر بیس ہزارسے زائد افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کردیا گیا۔

حالیہ سیلاب: 2010

حالیہ سیلاب سے اب تک ایک ہزار چھ سو افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ ساٹھ لاکھ سے زائد افراد متاثر ہیں۔ اگرچہ لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کردیا گیا ہے تاہم اموات میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جارہاہے جبکہ مختلف بیماریوں کے پھوٹ پڑنے کا بھی خطرہ ہے۔

XS
SM
MD
LG