رسائی کے لنکس

ایران میں فوجی مداخلت کے تباہ کن نتائج کا انتباہ


پاکستان نے ایران کے متنازع جوہری پروگرام کے تناظر میں تہران کے خلاف کسی فوجی کارروائی کی سختی سے مخالفت کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ کے خطے کے لیے اس کے تباہ کن نتائج ہوں گے۔

سینیٹ کی کمیٹی برائے اُمور خارجہ کے جمعرات کو ہونے والے اجلاس کو بریفینگ دینے کے بعد وائس آف امریکہ سے مختصر گفتگو میں وزیرِ خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا کہ خطہ پہلے ہی فوجی مداخلتوں کے باعث عدم استحکام کا شکار ہے اور مزید کسی ایسے اقدام کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

’’ہم واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ ... ایران کے جوہری پروگرم سے متعلق تمام معاملات کو مذاکرات کی میز پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

سینیٹ کی خارجہ اُمور کمیٹی کے چیئرمین سلیم سیف اللہ نے بھی وی او اے سے گفتگو کرتے ہوئے وزیرِ خارجہ کے موقف کی تائید کی اور کہا کہ ممکنہ بیرونی مداخلت کے خطے پر بڑے خطرناک اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

’’آپ دیکھ رہے ہیں کہ افغانستان کی کیا صورت حال ہے، جو خطے خصوصاً پاکستان پر کتنی اثر انداز ہو رہی ہے۔ ایران سے بھی ہمارے تعلقات بہت اچھے ہیں، اُن کو بھی سمجھانا چاہیئے کہ وہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق چلیں ... (لیکن) یہ کوئی طریقہ نہیں ہے کہ اسرائیل حملے کی دھمکی دے، پاکستان اس قسم کی جارحیت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔‘‘

پاکستانی رہنماؤں کا یہ ردِعمل اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجامن نیتن یاہو کی جانب سے رواں ہفتے دورہِ واشنگٹن کے دوران اس انتباہ کے بعد سامنے آیا ہے کہ ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے باز رکھنے کے لیے وقت تیزی سے گزر رہا ہے اور اسرائیل مزید انتظار نہیں کر سکتا۔ اُن کے بقول وہ اسرائیل کی سلامتی کو ’’داؤ‘‘ پر نہیں لگائیں گے۔

اسرائیلی وزیرِ اعظم کے ان بیانات سے ایران کی جوہری تنصیبات کے خلاف اسرائیل کی فوجی کارروائی کے خدشات کو تقویت ملی ہے۔

ایک روز قبل واشنگٹن میں رواں سال کی اپنی پہلی نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر براک اوباما نے ایران کی حکومت کو جوہری ہتھیاروں کے حصول کی کوششیں ترک کرنے کے لیے تہران پر تعزیرات کے ذریعے دباؤ بڑھانے کی اپنی پالیسی کا یہ کہہ کر دفاع کیا تھا کہ ایرانی جوہری تنازع کو سفارتی طور پر حل کرنے کا موقع اب بھی موجود ہے۔

’’ایران پر تعزیرات کے نمایاں اثرات ہو رہے۔ دنیا متحد ہے جبکہ ایران سیاسی طور پر تنہا ہو گیا ہے۔‘‘

امریکی صدر کے بقول جو لوگ طبل جنگ بجا رہے ہیں ان پر ذمہ داریاں نہیں ہیں کیونکہ وہ ان کی طرح کمانڈر ان چیف نہیں ہیں۔

ایرانی قیادت ملک کے جوہری پروگرام کے بارے میں مغرب کے خدشات کو رد کرتی ہے اور اس کا موقف ہے کہ جوہری پروگرام کو پرامن مقاصد کے لیے ترقی دی جارہی ہے۔

XS
SM
MD
LG