پاکستان نے بھارت کو سزائے موت کے منتظر مبینہ بھارتی جاسوس کلبھوشن جادھو تک تیسری بار سفارتی رسائی دینے کی پیش کش کی ہے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کی طرف سے جمعے کو جاری کیے گئے بیان کے مطابق اس سفارتی رسائی کے موقع پر کوئی سیکیورٹی اہل کار موجود نہیں ہو گا۔
قبل ازیں پاکستانی حکام نے کہا تھا کہ بھارت کی درخواست پر دو بار دو بھارتی سفارت کاروں کی کلبھوشن جادھو سے 'بلا تعطل اور بلا رکاوٹ' ملاقات کرائی گئی تھی۔
لیکن بھارتی حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ مذکورہ سفارتی رسائی بلا تعطل اور بلامشروط نہیں تھی اور کلبھوشن جادھو بظاہر دباؤ میں تھے۔
بھارت کے مطابق یہ سفارتی رسائی عالمی عدالتِ انصاف کے فیصلے کے مطابق نہیں تھی۔ لیکن پاکستان نے بھارت کے ان دعووں کو رد کرتے ہوئے جمعے کو ایک بار پھر بھارت کو کلبھوشن تک سفارتی رسائی دینے کی پیش کش کی ہے۔
بھارت کا ابھی تک اس بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ تاہم پاکستان کی طرف سے یہ پیش کش ایسے وقت کی گئی ہے جب پاکستانی فوجی عدالت کی طرف سے کلبھوشن جادھو کو سنائی گئی سزا کے خلاف اپیل دائر کرنے کے لیے صرف تین دن باقی رہ گئے ہیں۔
پاکستان نے عالمی عدالتِ انصاف کے فیصلے کے تحت کلبھوشن جادھو اور بھارت کو پاکستان کی فوجی عدالت کی طرف سے نظرثانی کی اپیل اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کرنے کے لیے رواں سال 20 مئی کو ایک آرڈیننس جاری کیا تھا۔ جس کی میعاد رواں ماہ 19 جولائی کو ختم ہورہی ہے۔
پاکستانی حکام کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کی طرف سے جادھو کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں نظرثانی اپیل دائر کرنے کے لیے قانونی معاونت کی پیش کش کیے جانے کے باجود جادھو اپیل دائر کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔ تاہم بھارت کی طرف سے ابھی تک ایسا کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے کہ وہ مقررہ میعاد کے اندر پاکستانی عدالت میں اپیل دائر کریں گے یا نہیں۔
دوسری طرف بین الاقوامی قانون کے ماہر احمر بلال صوفی کا کہنا ہے کہ اگر بھارت یا جادھو مقررہ میعاد کے اندر نظرثانی کی اپیل دائر نہیں کرتے تو اس کے بعد بھی قانون میں گنجائش ہے کہ وہ پاکستانی عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں۔
احمر بلال کے بقول اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے تحت پاکستان کے لیے عالمی عدالت انصاف کے فیصلوں پر عمل درآمد کرنا لازمی ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان نے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے تحت کلھبوشن جادھو اور بھارت کو نظر ثانی کی اپیل دائر کرنے سہولت دی ہے۔
ان کے بقول یہ سہولت فراہم کرنے کے لیے پاکستان نے بطور ذمہ دار ریاست کے ایک آرڈیننس کے ذریعے قانون سازی کر دی ہے اور پاکستان نے جادھو اور بھارت کا ایک خاص پلیٹ فارم اور ایک قانونی موقع فراہم کر دیا ہے۔
احمر بلال کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ضابطہ دیوانی کی سیکشن 83 کے تحت کوئی غیر ملکی اگر پاکستانی عدالت میں کوئی اپیل دائر کرنا چاہے تو اسے وفاقی حکومت کی اجازت سے یہ سہولت دی جاتی ہے۔
ان کے بقول کوئی غیر ملکی ریاست بھی پاکستان کے ضابطہ فوجداری کے سیکشن 84 کے تحت پاکستانی عدالت سے رجوع کر سکتی ہے۔
احمر بلال کا مزید کہنا تھا کہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ضابطہ دیوانی پاکستان اور بھارت میں تقریباً ایک جیسا ہے۔
ان کے بقول پاکستان کے ضابطہ دیوانی میں بعض دیگر راستے بھی موجود ہیں جن کے تحت بعض پیچیدہ قانونی معاملات میں عدالت کی رائے بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔
احمر بلال کا مزید کہنا تھا کہ اگر بھارت چاہے تو نظرثانی کی اپیل دائر کرنے کے کئی آپشن موجود ہیں۔ ان کے بقول بھارت کی طرف سے کلبھوشن جادھو کے سزا کے خلاف نظرثانی کی اپیل دائر کرنے میں ان کی ہچکچاہٹ کی وجہ سیاسی ہو سکتی ہے۔
دوسری طرف بھارت کا کہنا ہے پاکستان نے اس کے سفارت کاروں کو کلبھوشن تک رسائی مناسب طریقے سے فراہم نہیں کی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے سفارتی تعلقات گزشتہ سال بھارت کی طرف سے نئی دہلی کے زیر انتطام کشمیر کی خصوصی حییثت ختم کرنے کی وجہ سے سرد مہری کا شکار ہیں۔ لہذٰا اس کے اثرات پاکستان میں سزا یافتہ مبینہ بھارتی جاسوس کلبھوشن جادھو کے معاملے پر بھی پڑ رہے ہیں۔
بین الاقوامی قانون کی ماہر احمر بلال کا مزید کہنا ہے کہ سیاسی طور پر شاید دوبارہ عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرنے یا نہ کرنے کا انحصار بھارت کے وکلا پر ہے۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو یہ ایک سیاسی فیصلہ ہو گا۔ لیکن ان کےبقول وہ یہ سمجھتے ہیں کہ قانونی طور پر اُن کی داد رسی کا پلیٹ فارم پاکستانی عدالتیں ہی ہیں۔
احمر بلال کہتے ہیں کہ پاکستان کی ریاست بھی چاہے گی کہ وہ کلبھوشن تک سفارتی رسائی فراہم کرنے میں سہولت فراہم کریں تاکہ بھارت کو کسی اور جگہ یہ معاملہ اٹھانے کا موقع نہ ملے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ بھارت کو کلبھوشن سے متعلقہ معاملات کی تفصیلات پاکستانی عدالتوں کے سامنے رکھنا ہوں گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کو اپنے باہمی معاملات اور تنازعات بشمول کشمیر کے تنازع کو حل کرنے کے لیے قانونی سفارت کاری کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ کلبھوشن جادھو کا معاملہ قانونی نوعیت کا ہے لیکن ان کے بقول پاک بھارت کشیدگی کی وجہ سے یہ معاملہ سیاسی بن گیا ہے۔
بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار نجم رفیق کا کہنا ہے کہ پاکستان کی بارہا پیش کش کے باوجود نئی دہلی اسلام آباد سے بات چیت سے انکار کرتا آ رہا ہے۔ ان کے بقول جب تک پاک بھارت سفارتی رابطے مکمل طور پر بحال نہیں ہوتے اس وقت تک دونوں ملک کے درمیان سفارتی تناؤ برقرار رہے گا۔
یاد رہے کہ پاکستان نے کلبھوشن جادھو کو جاسوسی اور ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات کے تحت 2016 میں گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
پاکستان کا دعویٰ رہا ہے کہ کلھبوشن بھارتی بحریہ کے حاضر سروس افسر ہیں اور ان کا تعلق بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ سے ہے۔ لیکن بھارت اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے یہ کہہ چکا ہے کہ کلبھوشن بحریہ کے ریٹائرڈ افسر ہیں جن کا ’را‘ سے کوئی تعلق نہیں۔