پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعتیں سات ماہ کی بندش کے بعد گزشتہ ہفتے نیٹو سپلائی لائن کی بحالی کے فیصلے کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں۔
قومی اسمبلی کے پیر کو ہونے والے اجلاس کے آغاز پر اپوزیشن جماعت مسلم لیگ (ن) نے نیٹو سپلائی لائن کی بحالی کے فیصلے پر احتجاجاً ایوان سے واک آؤٹ کیا۔
پارلیمان کے ایوان زیریں نے حزب اختلاف کی جماعت نے یہ احتجاج ایسے وقت کیا جب پاکستان میں 40 سے زائد مذہبی جماعتوں اور دائیں بازو کے خیالات کی نمائندگی کرنے والی شخصیات کے دفاع پاکستان کونسل نامی اتحاد کی سرپرستی میں سپلائی لائن کی بحالی خلاف احتجاجی ریلی پیر کو اسلام آباد پہنچ رہی ہے۔
احتجاجی ریلی کا آغاز اتوار کی دوپہر لاہور سے ہوا تھا اور اس میں شامل ہزاروں افراد ٹرکوں، بسوں، گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے قافلے کی صورت میں ملک کی مرکزی شاہراہ ’جی ٹی روڈ‘ کے راستے وفاقی دارالحکومت کی جانب اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔
لانگ مارچ نامی اس جلوس کے منتظمین نے دارالحکومت کے مرکزی تجارتی علاقے کے قریب پارلیمان کی عمارت کے سامنے دھرنا دینے کا اعلان کر رکھا ہے، تاہم حکام نے اس مقام تک رسائی محدود کرنے کے لیے سڑک کے اطراف خار دار تاریں بچھا رکھی ہیں۔
کونسل کے چیئرمین مولانا سمیع الحق کی قیادت میں منعقد کی جانے والی اس ریلی میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ حمید گل، جماعت اسلامی کے منور حسن اور کالعدم تنظیم جماعت الدعوہ کے حافظ محمد سعید بھی شامل ہیں۔
لانگ مارچ کے آغاز پر اس میں جماعت الدعوہ کے کارکنوں کی بھی بڑی تعداد بھی شریک تھی لیکن وفاقی مشیر داخلہ رحمٰن ملک نے متنبہ کر رکھا ہے کہ کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والوں کو اسلام آباد میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔
دفاع پاکستان کونسل کی قیادت کا الزام ہے کہ پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت نے پارلیمان کی سفارشات کے بر خلاف افغانستان میں اتحادی افواج کو رسد کی ترسیل کا فیصلہ کیا ہے اور لانگ مارچ کا مقصد انتظامیہ کو اسے واپس لینے پر مجبور کرنا ہے۔
لیکن پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیٹو رسد کی ترسیل دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ قومی مفاد اور پارلیمان کے مرتب کردہ رہنما اُصولوں کو مد نظر رکھ کر کیا گیا ہے۔
نومبر میں سلالہ چوکی پر نیٹو کے فضائی حملے میں 24 فوجیوں کی ہلاک پر سخت رد عمل میں پاکستان نے نیٹو قافلوں کے لیے احتجاجاً اپنی سرحد کی بندش کا اعلان کیا تھا جو سات ماہ سے زائد عرصہ تک جاری رہی۔
قومی اسمبلی کے پیر کو ہونے والے اجلاس کے آغاز پر اپوزیشن جماعت مسلم لیگ (ن) نے نیٹو سپلائی لائن کی بحالی کے فیصلے پر احتجاجاً ایوان سے واک آؤٹ کیا۔
پارلیمان کے ایوان زیریں نے حزب اختلاف کی جماعت نے یہ احتجاج ایسے وقت کیا جب پاکستان میں 40 سے زائد مذہبی جماعتوں اور دائیں بازو کے خیالات کی نمائندگی کرنے والی شخصیات کے دفاع پاکستان کونسل نامی اتحاد کی سرپرستی میں سپلائی لائن کی بحالی خلاف احتجاجی ریلی پیر کو اسلام آباد پہنچ رہی ہے۔
احتجاجی ریلی کا آغاز اتوار کی دوپہر لاہور سے ہوا تھا اور اس میں شامل ہزاروں افراد ٹرکوں، بسوں، گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے قافلے کی صورت میں ملک کی مرکزی شاہراہ ’جی ٹی روڈ‘ کے راستے وفاقی دارالحکومت کی جانب اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔
لانگ مارچ نامی اس جلوس کے منتظمین نے دارالحکومت کے مرکزی تجارتی علاقے کے قریب پارلیمان کی عمارت کے سامنے دھرنا دینے کا اعلان کر رکھا ہے، تاہم حکام نے اس مقام تک رسائی محدود کرنے کے لیے سڑک کے اطراف خار دار تاریں بچھا رکھی ہیں۔
کونسل کے چیئرمین مولانا سمیع الحق کی قیادت میں منعقد کی جانے والی اس ریلی میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ حمید گل، جماعت اسلامی کے منور حسن اور کالعدم تنظیم جماعت الدعوہ کے حافظ محمد سعید بھی شامل ہیں۔
لانگ مارچ کے آغاز پر اس میں جماعت الدعوہ کے کارکنوں کی بھی بڑی تعداد بھی شریک تھی لیکن وفاقی مشیر داخلہ رحمٰن ملک نے متنبہ کر رکھا ہے کہ کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والوں کو اسلام آباد میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔
دفاع پاکستان کونسل کی قیادت کا الزام ہے کہ پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت نے پارلیمان کی سفارشات کے بر خلاف افغانستان میں اتحادی افواج کو رسد کی ترسیل کا فیصلہ کیا ہے اور لانگ مارچ کا مقصد انتظامیہ کو اسے واپس لینے پر مجبور کرنا ہے۔
لیکن پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیٹو رسد کی ترسیل دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ قومی مفاد اور پارلیمان کے مرتب کردہ رہنما اُصولوں کو مد نظر رکھ کر کیا گیا ہے۔
نومبر میں سلالہ چوکی پر نیٹو کے فضائی حملے میں 24 فوجیوں کی ہلاک پر سخت رد عمل میں پاکستان نے نیٹو قافلوں کے لیے احتجاجاً اپنی سرحد کی بندش کا اعلان کیا تھا جو سات ماہ سے زائد عرصہ تک جاری رہی۔