اسلام آباد —
50 سال کے وقفے کے بعد پہلی مرتبہ پاکستانی فلم کو بین الاقوامی فلم ایوارڈز آسکر کے لیے بھیجا جارہا ہے جسے مبصرین و ماہرین دنیا میں پاکستان کو دہشت گردی سے جوڑے جانے کے ’’منفی‘‘ تاثر کو زائل کرنے اور فلمی صنعت کی بحالی کی ایک کوشش قرار دیتے ہیں۔
پاکستانی ہدایتکارہ شرمین عبید چنوئے کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی گئی ہے جو کہ مقامی ہدایتکاروں اور فلسازوں کی بنائی ہوئی فلموں میں سے چناؤ کرتے ہوئے بین الاقوامی زبان کی بہترین فلم کے شعبے کے مقابلوں کے لیے بھیجے گی۔
شرمین چنوئے خود بھی گزشتہ سال ایک دستاویزی فلم کی معاون ہدایتکاری پر آسکر ایوارڈ جیت چکی ہیں۔
پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور فوجی بغاوتوں نے جہاں معاشرے میں قدامت پسندی اور مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دیا ہے وہیں مبصرین کے مطابق فنون لطیفہ اور بالخصوص فلمی صنعت بھی ان کے اثرات سے نا بچ سکی اور گزشتہ چند دہائیوں سے مسلسل تنزلی کا شکار رہی۔
کمیٹی کی ایک رکن معروف اداکارہ و ہدایتکارہ ثمینہ پیرزادہ کا وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال میں پاکستانی معاشرے اور ثقافت کی درست تشہیر کے لیے یہ قدم بہت اہم ہے۔
’’فنکار ہمیشہ محبت کی بات کرتاہے۔ جتنا ہم اظہار کر سکیں گے کہ ہم کس طرح سوچتے ہیں۔ کیا ہمارا رہن سہن ہے۔ ہمیں کیا مشکلات ہیں۔ اتنا ہی ہمارے لیے اچھا ہوگا ہم بھی چیزوں کو بہت حد تک عیاں کر سکیں گے۔ یورپ نے بھی تو ایسا کیا۔ آئینہ دکھایا تو بہتر ہوئے۔‘‘
60 کی دہائی میں جاگا ہوا سویرا اور گھونگھٹ وہ دو پاکستانی فلمیں تھیں جو آسکر ایوارڈ کے لیے بھیجی گئی تھیں۔ اخباری معلومات کے مطابق راواں سال اب تک 21 پاکستانی فلمیں ریلیز ہوچکی ہیں۔ آسکر ایوارڈز کے لیے کوئی بھی فلمساز کمیٹی کے پاس انٹری یکم اکتوبر تک بھیج سکتا ہے۔
ثمینہ پیرزادہ کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی ایوارڈز میں پاکستانی فلموں کی شرکت سے نوجوان ہدایتکاروں اور اداکاروں کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ ملک کی فلمی صنعت میں بہتری آئے گی۔
’’ایران قدامت پسند ملک ہے مگر ان کے سنیما نے پوری دنیا میں نام بنا لیا ہے وہ آرٹ ہاؤس سنیما سے آسکر تک پہنچ گئے ہیں تو کیا ہم نہیں کھڑے ہوسکتے؟ بھارت کے مین اسٹریم جیسا سنیما ہمارا کبھی نہیں رہا۔ ہم ہمیشہ زیادہ تر سماجی ایشوز پر فلمیں بناتے رہے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ فلمی صنعت کی بحالی کے لیے آزاد سنیما کا فروغ لازمی ہے جہاں ان کے بقول فلمسازوں اور تقسیم کاروں کی اجارہ داری نا ہو۔
سینئیر اداکارہ کا کہنا تھا کہ تہذیب و تمدن کے بارے میں آگاہی سے موجودہ کئی سنجیدہ معاشرتی مسائل کا حل ممکن ہے۔
’’ہمارے لیڈرز کو یہ نہیں پتہ کہ ہم ثقافتی طور پر کہاں سے آئیں ہیں۔ میں اس دن کا انتظار کررہی ہوں جب ہمارا وزیراعظم سمجھ لے گا کہ پاکستان کی 60 ہزار سال پرانی وادی سندھ کی تہذیب تھی اور ہم اس خطے کے ہیں ہم نا کوئی عرب، نا مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھتے اور نا کہیں اور سے۔‘‘
مبصرین کا کہنا ہے کہ جنگی میدان کے علاوہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے ہر سطح اور ہر شعبے میں جارحانہ انداز میں کوششیں ہی موثر و دیرپا کامیابی کی ضمانت ہیں اور تعلیم، ثقافت اور روایات کی ترویج بھی اس کے اہم اجزا ہیں۔
پاکستانی ہدایتکارہ شرمین عبید چنوئے کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی گئی ہے جو کہ مقامی ہدایتکاروں اور فلسازوں کی بنائی ہوئی فلموں میں سے چناؤ کرتے ہوئے بین الاقوامی زبان کی بہترین فلم کے شعبے کے مقابلوں کے لیے بھیجے گی۔
شرمین چنوئے خود بھی گزشتہ سال ایک دستاویزی فلم کی معاون ہدایتکاری پر آسکر ایوارڈ جیت چکی ہیں۔
پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور فوجی بغاوتوں نے جہاں معاشرے میں قدامت پسندی اور مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دیا ہے وہیں مبصرین کے مطابق فنون لطیفہ اور بالخصوص فلمی صنعت بھی ان کے اثرات سے نا بچ سکی اور گزشتہ چند دہائیوں سے مسلسل تنزلی کا شکار رہی۔
کمیٹی کی ایک رکن معروف اداکارہ و ہدایتکارہ ثمینہ پیرزادہ کا وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال میں پاکستانی معاشرے اور ثقافت کی درست تشہیر کے لیے یہ قدم بہت اہم ہے۔
’’فنکار ہمیشہ محبت کی بات کرتاہے۔ جتنا ہم اظہار کر سکیں گے کہ ہم کس طرح سوچتے ہیں۔ کیا ہمارا رہن سہن ہے۔ ہمیں کیا مشکلات ہیں۔ اتنا ہی ہمارے لیے اچھا ہوگا ہم بھی چیزوں کو بہت حد تک عیاں کر سکیں گے۔ یورپ نے بھی تو ایسا کیا۔ آئینہ دکھایا تو بہتر ہوئے۔‘‘
60 کی دہائی میں جاگا ہوا سویرا اور گھونگھٹ وہ دو پاکستانی فلمیں تھیں جو آسکر ایوارڈ کے لیے بھیجی گئی تھیں۔ اخباری معلومات کے مطابق راواں سال اب تک 21 پاکستانی فلمیں ریلیز ہوچکی ہیں۔ آسکر ایوارڈز کے لیے کوئی بھی فلمساز کمیٹی کے پاس انٹری یکم اکتوبر تک بھیج سکتا ہے۔
ثمینہ پیرزادہ کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی ایوارڈز میں پاکستانی فلموں کی شرکت سے نوجوان ہدایتکاروں اور اداکاروں کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ ملک کی فلمی صنعت میں بہتری آئے گی۔
’’ایران قدامت پسند ملک ہے مگر ان کے سنیما نے پوری دنیا میں نام بنا لیا ہے وہ آرٹ ہاؤس سنیما سے آسکر تک پہنچ گئے ہیں تو کیا ہم نہیں کھڑے ہوسکتے؟ بھارت کے مین اسٹریم جیسا سنیما ہمارا کبھی نہیں رہا۔ ہم ہمیشہ زیادہ تر سماجی ایشوز پر فلمیں بناتے رہے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ فلمی صنعت کی بحالی کے لیے آزاد سنیما کا فروغ لازمی ہے جہاں ان کے بقول فلمسازوں اور تقسیم کاروں کی اجارہ داری نا ہو۔
سینئیر اداکارہ کا کہنا تھا کہ تہذیب و تمدن کے بارے میں آگاہی سے موجودہ کئی سنجیدہ معاشرتی مسائل کا حل ممکن ہے۔
’’ہمارے لیڈرز کو یہ نہیں پتہ کہ ہم ثقافتی طور پر کہاں سے آئیں ہیں۔ میں اس دن کا انتظار کررہی ہوں جب ہمارا وزیراعظم سمجھ لے گا کہ پاکستان کی 60 ہزار سال پرانی وادی سندھ کی تہذیب تھی اور ہم اس خطے کے ہیں ہم نا کوئی عرب، نا مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھتے اور نا کہیں اور سے۔‘‘
مبصرین کا کہنا ہے کہ جنگی میدان کے علاوہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے ہر سطح اور ہر شعبے میں جارحانہ انداز میں کوششیں ہی موثر و دیرپا کامیابی کی ضمانت ہیں اور تعلیم، ثقافت اور روایات کی ترویج بھی اس کے اہم اجزا ہیں۔