وزیراعظم نواز شریف کے خاندان کے غیر ملکی اثاثوں اور ان کے ذرائع سے متعلق تفتیش کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم پیر کو اپنی حتمی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروانے جا رہی ہے لیکن حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کی طرف سے اس تحقیقاتی عمل پر ہونے والی تنقید میں شدت اور دوسری جانب حزب مخالف کے اس بارے میں موقف سے ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ آئندہ آنے والے دنوں میں پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں شدید ہلچل دیکھنے میں آسکتی ہے۔
گزشتہ سال اپریل میں پاناما پیپرز میں وزیراعظم کے بچوں کی آف شور کمپنیوں کے انکشاف سے دشنام طرازیوں کا سلسلہ بالآخر سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کرنے پر کچھ دیر کے لیے تھما تو عدالت عظمیٰ نے رواں سال 20 اپریل کو اس معاملے کی تحقیقات کے لیے چھ رکنی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دیتے ہوئے اسے 60 روز میں اپنی رپورٹ پیش کرنے کا کہا۔
یہ ٹیم وزیراعظم نواز شریف، ان کے بھائی وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، تینوں بچوں اور دیگر اہم شخصیات کو طلب کر کے ان سے سوال و جواب کر چکی ہے۔
حکمران جماعت پہلے بھی تحقیقاتی ٹیم کے طریقہ کار پر تحفظات کا اظہار کرتی رہی ہے لیکن ہفتہ کو دیر گئے چار وفاقی وزرا نے ایک پریس کانفرنس میں تحقیقاتی ٹیم پر شدید تنقید کرتے ہوئے یہ بات کھل کر کہہ دی کہ مالی ذرائع سے متعلق قطر کے شہزادے حماد بن جاسم کا بیان اگر نہیں لیا جاتا تو وہ اس رپورٹ کو تسلیم نہیں کریں گے۔
قطری شہزادے کا اصرار ہے کہ ٹیم کے ارکان ان کے محل میں آکر ان سے معلومات لیں اور اس کے علاوہ وہ کسی اور صورت کوئی بیان نہیں دیں گے۔
حزب مخالف خصوصاً پاکستان تحریک انصاف اور عوامی مسلم لیگ حکومتی عہدیداروں کے اس عدم اطمینان کو بے جا قرار دیتے ہوئے تحقیقاتی عمل اور سپریم کورٹ پر اثر انداز ہونے کی مبینہ کوششوں سے تعبیر کرتے ہیں۔
لیکن اتوار کو لاہور میں اپنی جماعت کے کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے ریلوے خواجہ سعد رفیق نے حزب مخالف کے اس تاثر کو مسترد کیا۔
"جے آئی ٹی پر تنقید ہو سکتی ہے، جے آئی ٹی غلط کرے تو بحث ہو گی اسی طرح عدالتوں کے فیصلے ماننے پڑتے ہیں ماننے چاہیئں مانے جائیں گے لیکن اگر اعتراض ہو گا تو اعتراض سامنے لایا جائے گا کہ یہ ہمارا بنیادی آئینی حق ہے۔"
تاہم عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور تحریک انصاف کے حامی شیخ رشید احمد نے راولپنڈی میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے متنبہ کیا کہ اگر حکمران جماعت نے ان کے بقول انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی تو اسے بھرپور احتجاج کا سامنا کرنے پڑے گا۔
"مجھے ایسی بو محسوس ہو رہی ہے کل یہ (حکمران جماعت) سپریم کورٹ میں جائیں گے اور چیف جسٹس صاحب سے کہیں گے کہ جناب ہمارے خلاف سازش ہو رہی ہے اگر کسی نے سپریم کورٹ پر یا فیصلوں کو چیلنج کیا تو عمران خان ایسی کال دے گا کہ پاکستان کی تاریخ میں یاد رکھا جائے گا اور شیخ رشید عمران خان کے ساتھ ہو گا کندھے سے کندھے ملا کر۔"
سیاسی امور کے سینیئر تجزیہ کار احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ حالیہ دنوں میں تحقیقاتی عمل سے متعلق حکومت اور حزب مخالف کے بیانات کے تناظر میں بظاہر ملک میں سیاسی عدم استحکام کے اشارے ملتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا "دیکھیے اب جو بھی فیصلہ آئے گا وہ اس سے دو پارٹیاں جو بڑی پارٹیاں جو متحرک پارٹیاں ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ برسرپیکار ہیں یا تو ایک ناراض ہو گی یا دوسری ناراض ہو گی یا ایک سڑکوں پر آئے گی یا دوسری سڑکوں پر آئے گی۔"
ان کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ انتہائی سیاسی نوعیت اختیار کر چکا ہے اور اس سے وقت کے ساتھ ساتھ اداروں میں ٹکراؤ کا بھی خدشہ پیدا ہو سکتا ہے۔