اسلام آباد —
نسلی امتیاز کے خلاف جد و جہد کی علامت سمجھے جانے والے جنوبی افریقہ کے رہنما نیلسن منڈیلا کے انتقال پر پاکستان میں قانون سازوں نے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ منڈیلا رواداری، برداشت اور محبت جیسا پیغام چھوڑ گئے ہیں جس کی دنیا خاص طور پر پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو بہت ضرورت ہے۔
مختلف سیاسی جماعتوں کے اراکین سینیٹ و قومی اسمبلی نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ نیلسن منڈیلا جیسے رہنماء کی پاکستان کو بہت ضرورت ہے۔
پاکستان کے صدر ممنون حسین اور وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے الگ الگ پیغامات میں دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسٹر منڈیلا کی جد و جہد کو دنیا بھر میں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
جمعہ کو پاکستان کی پارلیمان کے ایوان بالا ’سینیٹ‘ اور ایوان زیریں ’قومی اسمبلی‘ نے نیلسن منڈیلا کے انتقال پر تعزیتی قراردادیں متفقہ طور پر منظور کیں۔
قومی اسمبلی میں قرار داد وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ امور و قومی سلامتی سرتاج عزیز نے پیش کی جس میں کہا گیا کہ حقیقی جمہوریت کی علامت سمجھے جانے والے منڈیلا کے انتقال پر پاکستانی عوام جنوبی افریقہ کے لوگوں کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔
قرارداد میں مسٹر منڈیلا کی محکوم لوگوں کے وقار اور ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کی جدوجہد کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔
وفاقی وزیر برائے سرحدی اُمور عبد القادر بلوچ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ نیلسن منڈیلا کی زندگی سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔
’’وہ ایک عظیم شخص تھے، اس میں کوئی شک نہیں…. یہ اُن کی کوشش، قربانی اور استقامت تھی اور اُصولوں کی سیاست تھی جس نے اُن کو وہ سب کچھ دلایا جس کی مثال آج دنیا میں دی جا رہی ہے۔‘‘
متحدہ قومی موومنٹ کے سینیئر رہنماء اور سابق وفاقی وزیر بابر غوری کہتے ہیں کہ نیلسن منڈیلا نے اپنے ملک میں نفرتوں کو ختم کرنے میں جو کردار ادا کیا وہ دنیا کے کئی رہنماؤں کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
’’پاکستان کی ہماری جو سیاسی قیادت اور دیگر با اخیتار قیادت ہے اُن کو سیکھنا چاہیئے (نیلسن منڈیلا) کی جد و جہد سے کہ اُنھوں نے تفریق ختم کی نفرت ختم کی… ہمیں بھی آج پاکستان میں نفرتیں ختم کرنا ہوں گی ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہو گا۔‘‘
عوامی مسلم لیگ کے رہنماء اور رکن قومی اسمبلی شیخ رشید کہتے ہیں کہ ’’میں نے بطور مہمان اُن کو پاکستان میں خوش آمدید کہا ہے، جب وہ دو دفعہ پاکستان میں تشریف لائے۔ وہ عظیم انسان اور بڑے آدمی تھے انھوں نے اپنی عظمت ایک ایسے ملک میں منوائی ... ساری دنیا میں اس سے سبق لینے کی اور اس کی روایت پر چلنے کی ضرورت ہے، پاکستان میں تو بہت زیادہ ضرورت ہے۔‘‘
تحریک انصاف کے رکن اسمبلی اسد عمر کا اس بارے میں کہنا تھا کہ ’’نیلسن منڈیلا بیسویں صدی کے عظیم ترین رہنماؤں میں سے تھے اور اُن کا پیغام جو تھا بھائی چارے کا امن کا، ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنا، ایک دوسرے کی غلطیوں کو معاف کرنے کا، وہ شاید آج کے پاکستان کے لیے ایک انتہائی اہم پیغام ہے۔‘‘
سینیٹر بابر اعوان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ مسٹر منڈیلا کی زندگی کا سفر امن کے لیے کوشش کرنے والوں کے لیے ایک پیغام ہے۔
’’نیلسن منڈیلا ایک علامت تھی وہ صرف سیاستدان نہیں تھے۔ لیکن مصالحت اور امن کے ذریعے جد و جہد کرنے والوں میں اُن کا اپنا ایک الگ مقام ہے اور نسلی امتیاز کے خلاف نیلسن منڈیلا کے خیالات ہیں اُن کو پاکستان جیسے ممالک میں نصاب میں شامل کرنا چاہیئے۔‘‘
پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنماء اعتزاز احسن کا منڈیلا کے انتقال پر کہنا تھا کہ ’’سخت سزائیں کاٹنے کے بعد جب وہ (نیلسن منڈیلا) باہر نکلے تو اُن کا پیغام محبت کا تھا، ہر قوم کو اس جیسے رہنما کی ضرورت ہے، جس قوم کو بھی اُس جیسا رہنما ملے وہ خوش قسمت ہو گی۔‘‘
نیلسن منڈیلا جوہانسبرگ میں 95 سال کی عمر میں جمعرات کو انتقال کر گئے تھے، وہ طویل عرصے سے علیل تھے۔
نیلسن منڈیلا نے دو بار پاکستان کا دورہ اور پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب بھی کیا۔ پاکستان کے دونوں ایوان سے منظور کی گئی متفقہ قراردادوں میں کہا گیا کہ جنوبی افریقہ کے یہ عظیم رہنما ہمیشہ پاکستانی عوام کے ذہن و دل میں رہیں گے۔
مختلف سیاسی جماعتوں کے اراکین سینیٹ و قومی اسمبلی نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ نیلسن منڈیلا جیسے رہنماء کی پاکستان کو بہت ضرورت ہے۔
پاکستان کے صدر ممنون حسین اور وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے الگ الگ پیغامات میں دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسٹر منڈیلا کی جد و جہد کو دنیا بھر میں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
جمعہ کو پاکستان کی پارلیمان کے ایوان بالا ’سینیٹ‘ اور ایوان زیریں ’قومی اسمبلی‘ نے نیلسن منڈیلا کے انتقال پر تعزیتی قراردادیں متفقہ طور پر منظور کیں۔
قومی اسمبلی میں قرار داد وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ امور و قومی سلامتی سرتاج عزیز نے پیش کی جس میں کہا گیا کہ حقیقی جمہوریت کی علامت سمجھے جانے والے منڈیلا کے انتقال پر پاکستانی عوام جنوبی افریقہ کے لوگوں کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔
قرارداد میں مسٹر منڈیلا کی محکوم لوگوں کے وقار اور ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کی جدوجہد کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔
وفاقی وزیر برائے سرحدی اُمور عبد القادر بلوچ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ نیلسن منڈیلا کی زندگی سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔
’’وہ ایک عظیم شخص تھے، اس میں کوئی شک نہیں…. یہ اُن کی کوشش، قربانی اور استقامت تھی اور اُصولوں کی سیاست تھی جس نے اُن کو وہ سب کچھ دلایا جس کی مثال آج دنیا میں دی جا رہی ہے۔‘‘
متحدہ قومی موومنٹ کے سینیئر رہنماء اور سابق وفاقی وزیر بابر غوری کہتے ہیں کہ نیلسن منڈیلا نے اپنے ملک میں نفرتوں کو ختم کرنے میں جو کردار ادا کیا وہ دنیا کے کئی رہنماؤں کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
’’پاکستان کی ہماری جو سیاسی قیادت اور دیگر با اخیتار قیادت ہے اُن کو سیکھنا چاہیئے (نیلسن منڈیلا) کی جد و جہد سے کہ اُنھوں نے تفریق ختم کی نفرت ختم کی… ہمیں بھی آج پاکستان میں نفرتیں ختم کرنا ہوں گی ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہو گا۔‘‘
عوامی مسلم لیگ کے رہنماء اور رکن قومی اسمبلی شیخ رشید کہتے ہیں کہ ’’میں نے بطور مہمان اُن کو پاکستان میں خوش آمدید کہا ہے، جب وہ دو دفعہ پاکستان میں تشریف لائے۔ وہ عظیم انسان اور بڑے آدمی تھے انھوں نے اپنی عظمت ایک ایسے ملک میں منوائی ... ساری دنیا میں اس سے سبق لینے کی اور اس کی روایت پر چلنے کی ضرورت ہے، پاکستان میں تو بہت زیادہ ضرورت ہے۔‘‘
تحریک انصاف کے رکن اسمبلی اسد عمر کا اس بارے میں کہنا تھا کہ ’’نیلسن منڈیلا بیسویں صدی کے عظیم ترین رہنماؤں میں سے تھے اور اُن کا پیغام جو تھا بھائی چارے کا امن کا، ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنا، ایک دوسرے کی غلطیوں کو معاف کرنے کا، وہ شاید آج کے پاکستان کے لیے ایک انتہائی اہم پیغام ہے۔‘‘
سینیٹر بابر اعوان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ مسٹر منڈیلا کی زندگی کا سفر امن کے لیے کوشش کرنے والوں کے لیے ایک پیغام ہے۔
’’نیلسن منڈیلا ایک علامت تھی وہ صرف سیاستدان نہیں تھے۔ لیکن مصالحت اور امن کے ذریعے جد و جہد کرنے والوں میں اُن کا اپنا ایک الگ مقام ہے اور نسلی امتیاز کے خلاف نیلسن منڈیلا کے خیالات ہیں اُن کو پاکستان جیسے ممالک میں نصاب میں شامل کرنا چاہیئے۔‘‘
پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنماء اعتزاز احسن کا منڈیلا کے انتقال پر کہنا تھا کہ ’’سخت سزائیں کاٹنے کے بعد جب وہ (نیلسن منڈیلا) باہر نکلے تو اُن کا پیغام محبت کا تھا، ہر قوم کو اس جیسے رہنما کی ضرورت ہے، جس قوم کو بھی اُس جیسا رہنما ملے وہ خوش قسمت ہو گی۔‘‘
نیلسن منڈیلا جوہانسبرگ میں 95 سال کی عمر میں جمعرات کو انتقال کر گئے تھے، وہ طویل عرصے سے علیل تھے۔
نیلسن منڈیلا نے دو بار پاکستان کا دورہ اور پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب بھی کیا۔ پاکستان کے دونوں ایوان سے منظور کی گئی متفقہ قراردادوں میں کہا گیا کہ جنوبی افریقہ کے یہ عظیم رہنما ہمیشہ پاکستانی عوام کے ذہن و دل میں رہیں گے۔