پاکستان کی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں جمعہ کو ایک قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی جس میں عالمی برادری سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کا نوٹس لیتے ہوئے وہاں بھارتی جارحیت رکوانے میں اپنا کردار ادا کرے۔
یہ اجلاس بھارت کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی اور کشمیر کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں طلب کیا گیا تھا۔
وزیراعظم نواز شریف کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے اس موقع پر قرارداد کا متن پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان، کشمیر سمیت تمام دیرینہ تنازعات کے حل کے لیے بھارت سے نتیجہ خیز مذاکرات کا خواہش مند ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ بھارت پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرے۔
"بھارتی حکومت پر زور دیتے ہیں کہ وہ فوری طور پر معصوم لوگوں کو خوفزدہ کرنا بند کرے اور بین الاقوامی قوانین، انسانی حقوق کے قوانین اور ذمہ داریوں کا پاسداری کرے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر بھی عمل کرے۔ ہم لائن آف کنٹرول پر حالیہ بھارتی جارحیت اور فائر بندی کی مسلسل خلاف ورزی کی مذمت کرتے ہیں جو کہ خطے کے امن و سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔"
بھارت اپنے زیر انتظام کشمیر کی صورتحال کو اپنا داخلی معاملہ قرار دیتے ہوئے پاکستان کی تشویش کو مسترد کر چکا ہے اور اس کا اصرار ہے کہ وہ علیحدگی پسندوں کی حمایت سے باز رہے۔ تاہم پاکستان کا موقف ہے کہ وہ کشمیریوں کی سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھے گا۔
جمعہ کو منظور کی گئی قرارداد میں پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی بھارتی کوششوں کی بھی مذمت کرتے ہوئے اسے دونوں ملکوں کے مابین سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا۔
دونوں ملکوں کے درمیان گزشتہ ماہ بھارتی کشمیر میں ایک فوجی ہیڈکوارٹر پر مشتبہ دہشت گرد حملے کے بعد سے شدید تناؤ پایا جاتا ہے۔ اس حملے میں 18 فوجی مارے گئے تھے۔ بھارت کا الزام ہے کہ پاکستان اس کے ہاں دہشت گردوں کی معاونت کر رہا ہے لیکن اسلام آباد ان دعوؤں کو مسترد کرتا ہے۔
پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے ملک کی خارجہ پالیسی کے بارے میں حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمن کا کہنا تھا کہ عالمی برادری میں پاکستانی موقف کا دفاع موثر سفارتکاری سے ہی ممکن ہے۔