ترکی کے شہر استنبول میں بدھ کو افغانستان کے بارے میں ہونے والی کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کر رہی ہیں، جب کہ اس موقع پر صدر آصف علی زرداری بھی استنبول میں ہیں اور افغان اور ترک ہم منصبوں سے اُن کی ملاقاتوں کا مقصد بھی افغانستان میں امن و سلامتی سمیت تعمیر نو سے متعلق اُمور کا جائزہ لینا ہے۔
پاکستانی فوج نے پیر کو ایک بیان میں کہا ہے کہ فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی سہہ فریقی اجلاس میں شرکت کے لیے ترکی روانہ ہو گئے ہیں۔
استنبول کانفرنس میں پاکستان کے علاوہ چین، ایران اور افغانستان کے دیگر ہمسایہ ملکوں کے وزرائے خارجہ بھی شرکت کر رہے ہیں اور توقع ہے کہ اس کے اختتام پر جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ کی بنیاد پر 5 دسمبر کو جرمنی کے شہر بون میں ہونے والی کانفرنس میں پیش رفت کی جائے گی۔
استنبول اور بون میں ہونے والے اجلاسوں کا مقصد افغانستان میں طالبان سے مفاہمت اور 2014ء کے اختتام تک سلامتی کی ذمہ داریوں کی افغانوں کو منتقلی کے بعد امن و استحکام یقینی بنانے میں عالمی برادری کے کردار کا جائزہ لینا ہے۔
عمومی تاثر ہے کہ اس عمل کی کامیابی کے لیے افغانستان میں سرگرم عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات ناگریز ہیں جو افغان حکومت کے اعلیٰ ترین مصالحت کار برہان الدین ربانی کی ستمبر میں قاتلانہ حملے میں ہلاکت کے بعد سے بظاہر تعطل کا شکار ہیں۔
امریکی اور افغان حکام کہتے آئے ہیں کہ بات چیت کے اس عمل میں پاکستان کا تعاون انتہائی اہم ہے کیوں کہ وہ طالبان اور حقانی نیٹ ورک سمیت دیگر عسکری دھڑوں سے اپنے مبینہ روابط کا استعمال کر کے اُنھیں مذاکرات کی میز پر لانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔
پاکستان نے اپنے ہمسایہ ملک میں امن و استحکام کے لیے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے لیکن وہ یہ بھی واضح کر چکا ہے کہ مفاہمتی عمل میں وہ ضامن نہیں ہو گا کیوں کہ عسکریت پسند تنظیمیں اس کے کنٹرول میں نہیں۔
امریکہ یہ کہہ چکا ہے کہ وہ افغانستان میں طالبان بغاوت سے نمٹنے کے لیے فوجی طاقت کا استعمال جاری رکھے گا لیکن ساتھ ہی مذاکراتی عمل میں شمولیت کے لیے تیار عسکری گروہوں سے بات چیت کا دروازہ بھی کھلا رہے گا، کیوں کہ حالیہ ہفتوں میں تمام فریقین میں اس بات پر اتفاق دیکھنے میں آیا ہے کہ افغانستان مسئلے کا پائیدار حل امن و مفاہمت ہی ہے۔