اسلام آباد —
پاکستان میں ان دنوں جہاں ایک طرف سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے وہیں اسی دوران جمعہ کو ایک احتساب عدالت نے ملک کے سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف پر کرائے کے بجلی گھروں کے منصوبوں میں مبینہ بدعنوانی کے مقدمے میں فرد جرم عائد کر دی گئی۔
جمعہ کو اسلام آباد میں احتساب عدالت نے سماعت کے دوران راجہ پرویز اشرف سمیت دس ملزمان پر فرد جرم عائد کی لیکن سابق وزیراعظم سمیت تمام ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا۔
ان پر الزام ہے کہ انھوں نے بطور وزیر پانی و بجلی اپنے اختیار کا غلط استعمال کیا اور مشترکہ مفادات کونسل کی طرف سے ان منصوبوں کی منظوری کے لیے وضع کردہ قواعد و ضوابط کا خیال نہیں رکھا گیا جبکہ دیگر متعلقہ قوانین کی بھی خلاف ورزی کی گئی۔
پرویز اشرف نے سابق دور حکومت میں بطور انچارج وزیر پانی و بجلی کرائے کے بجلی گھروں کے منصوبوں کی منظوری دی تھی جسے بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے ان میں سے کچھ منصوبوں کو بدعنوانی کی شکایات پر کالعدم قرار دے دیا تھا۔
جمعہ کو ہونے والی عدالتی کارروائی کے بعد سابق وزیراعظم کے وکیل فاروق نائیک نے صحافیوں کو بتایا کہ ان کے موکل پر تین الزامات عائد کیے گئے۔
لیکن ان کا کہنا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں ان کے موکل کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی کوششیں آج کی فرد جرم کے بعد غلط ثابت ہو گئیں۔
’’جتنی ہائپ بنائی گئی کہ اربوں روپے کا نقصان کیا گیا کرپشن کی گئی، فائدے اٹھائے گئے یہ سب جھوٹ تھا یہ سب غلط باتیں کی گئیں۔ آج جو فرد جرم عائد کی گئی کہ راجہ صاحب پر کوئی ایسا الزام نہیں ہے کہ انھوں نے کوئی مالی نقصان پہنچایا ہو۔‘
‘
احتساب عدالت نے مقدمے کی سماعت چار فروری تک ملتوی کرتے ہوئے نیب کو تمام متعلقہ شواہد بھی عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔
ادھر جمعہ ہی کو اسلام آباد میں سابق فوجی صدر کے خلاف غداری کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے استغاثہ کی طرف سے پرویز مشرف کو ’’علامتی حراست‘‘ میں لینے کی استدعا کو مسترد کردیا۔
تین رکنی خصوصی عدالت کا کہنا تھا کہ سابق صدر کی صحت سے متعلق حقائق جاننے کے لیے بنائے گئے میڈیکل بورڈ کی طرف سے 24 جنوری کو پیش کی جانے والی رپورٹ کے بعد ہی اس بارے میں فیصلہ سنایا جائے گا۔
پرویز مشرف کے ایک وکیل محمد علی سیف نے عدالت کے باہر صحافیوں کو بتایا کہ وکیل استغاثہ نے عدالت سے کہا کہ سابق صدر کے خلاف ایسی کوئی بھی کارروائی نہیں ہوئی کہ ان کی حوالگی ہو سکے اور انھوں نے علامتی حراست کی اصطلاح استعمال کی جسے عدالت نے مسترد کر دیا۔
’’عدالت نے اے ایف آئی سی کے ڈاکٹروں پر مشتمل بورڈ تشکیل دیا ہے وہ اپنی رپورٹ پیش کرے گا۔ ۔ ۔ پاکستان کے کسی قانون میں علامتی حراست کا کوئی وجود نہیں۔ عدالت نے اس استدعا پر کوئی حکم جاری نہیں کیا اور وہ 24 جنوری کی سماعت پر کوئی حکم دیں گے۔‘‘
مقدمے کی آئندہ سماعت پیر کو ہوگی۔
وفاقی حکومت نے پرویز مشرف پر تین نومبر 2007ء کو پاکستان کا آئین معطل کرکے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے الزام میں ان پر غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے ایک خصوصی عدالت تشکیل دی تھی جس نے گزشتہ ماہ سے سماعت شروع کر رکھی ہے۔
سابق فوجی صدر اب تک کسی ایک پیشی پر بھی عدالت میں پیش نہیں ہوئے اور دو جنوری سے وہ وکلا کے بقول ناسازی طبع کے باعث راولپنڈی میں امراض قلب کے ایک فوجی اسپتال میں داخل ہیں۔
جمعہ کو اسلام آباد میں احتساب عدالت نے سماعت کے دوران راجہ پرویز اشرف سمیت دس ملزمان پر فرد جرم عائد کی لیکن سابق وزیراعظم سمیت تمام ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا۔
ان پر الزام ہے کہ انھوں نے بطور وزیر پانی و بجلی اپنے اختیار کا غلط استعمال کیا اور مشترکہ مفادات کونسل کی طرف سے ان منصوبوں کی منظوری کے لیے وضع کردہ قواعد و ضوابط کا خیال نہیں رکھا گیا جبکہ دیگر متعلقہ قوانین کی بھی خلاف ورزی کی گئی۔
پرویز اشرف نے سابق دور حکومت میں بطور انچارج وزیر پانی و بجلی کرائے کے بجلی گھروں کے منصوبوں کی منظوری دی تھی جسے بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے ان میں سے کچھ منصوبوں کو بدعنوانی کی شکایات پر کالعدم قرار دے دیا تھا۔
جمعہ کو ہونے والی عدالتی کارروائی کے بعد سابق وزیراعظم کے وکیل فاروق نائیک نے صحافیوں کو بتایا کہ ان کے موکل پر تین الزامات عائد کیے گئے۔
لیکن ان کا کہنا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں ان کے موکل کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی کوششیں آج کی فرد جرم کے بعد غلط ثابت ہو گئیں۔
’’جتنی ہائپ بنائی گئی کہ اربوں روپے کا نقصان کیا گیا کرپشن کی گئی، فائدے اٹھائے گئے یہ سب جھوٹ تھا یہ سب غلط باتیں کی گئیں۔ آج جو فرد جرم عائد کی گئی کہ راجہ صاحب پر کوئی ایسا الزام نہیں ہے کہ انھوں نے کوئی مالی نقصان پہنچایا ہو۔‘
‘
احتساب عدالت نے مقدمے کی سماعت چار فروری تک ملتوی کرتے ہوئے نیب کو تمام متعلقہ شواہد بھی عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔
ادھر جمعہ ہی کو اسلام آباد میں سابق فوجی صدر کے خلاف غداری کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے استغاثہ کی طرف سے پرویز مشرف کو ’’علامتی حراست‘‘ میں لینے کی استدعا کو مسترد کردیا۔
تین رکنی خصوصی عدالت کا کہنا تھا کہ سابق صدر کی صحت سے متعلق حقائق جاننے کے لیے بنائے گئے میڈیکل بورڈ کی طرف سے 24 جنوری کو پیش کی جانے والی رپورٹ کے بعد ہی اس بارے میں فیصلہ سنایا جائے گا۔
پرویز مشرف کے ایک وکیل محمد علی سیف نے عدالت کے باہر صحافیوں کو بتایا کہ وکیل استغاثہ نے عدالت سے کہا کہ سابق صدر کے خلاف ایسی کوئی بھی کارروائی نہیں ہوئی کہ ان کی حوالگی ہو سکے اور انھوں نے علامتی حراست کی اصطلاح استعمال کی جسے عدالت نے مسترد کر دیا۔
’’عدالت نے اے ایف آئی سی کے ڈاکٹروں پر مشتمل بورڈ تشکیل دیا ہے وہ اپنی رپورٹ پیش کرے گا۔ ۔ ۔ پاکستان کے کسی قانون میں علامتی حراست کا کوئی وجود نہیں۔ عدالت نے اس استدعا پر کوئی حکم جاری نہیں کیا اور وہ 24 جنوری کی سماعت پر کوئی حکم دیں گے۔‘‘
مقدمے کی آئندہ سماعت پیر کو ہوگی۔
وفاقی حکومت نے پرویز مشرف پر تین نومبر 2007ء کو پاکستان کا آئین معطل کرکے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے الزام میں ان پر غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے ایک خصوصی عدالت تشکیل دی تھی جس نے گزشتہ ماہ سے سماعت شروع کر رکھی ہے۔
سابق فوجی صدر اب تک کسی ایک پیشی پر بھی عدالت میں پیش نہیں ہوئے اور دو جنوری سے وہ وکلا کے بقول ناسازی طبع کے باعث راولپنڈی میں امراض قلب کے ایک فوجی اسپتال میں داخل ہیں۔