پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ کے مرکزی شہر پشاور میں جمعہ کی صبح ہونے والے ایک بم دھماکے میں کم ازکم پانچ پولیس اہلکاروں سمیت آٹھ افراد زخمی ہو گئے۔
یہ واقعہ شہر کے علاقے گل بہار میں پیش آیا جہاں پولیس کے اہلکار معمول کی گشت پر تھے کہ ان کے گاڑی کے پاس ایک ریموٹ کنٹرول بم کا دھماکا ہوا۔
دھماکے سے زخمی ہونے والوں کو اسپتال منتقل کر دیا گیا جہاں ایک اہلکار کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔
کالعدم تحریک طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
حکام ایسے حملوں کو شدت پسندوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کی جاری کارروائیوں کا ردعمل قرار دیتے آئے ہیں۔
شمال مغربی صوبہ اور اس کا مرکزی شہر دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں سے ایک ہے اور یہاں اس سے قبل بھی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے اہلکاروں پر حملے ہوتے رہے ہیں۔
اُدھر وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے جمعہ کو پشاور میں ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف اگرچہ بہت سے کامیابیاں ملی ہیں لیکن ایسی اطلاعات ملی ہیں کہ شدت پسند اب بھی آسان اہداف پر حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
"جب بھی جنگ ہوتی ہے تو دوسری طرف سے حملے ہوتے ہیں جب تک ان کے پاس اس کی طاقت ہے۔ مگر آہستہ آہستہ ان کی اس طاقت کو ہم ختم کریں گے اور ہماری یہ جنگ یہ جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ملک سے آخری دہشت گرد کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔"
اس صوبے سے ملحقہ قبائلی علاقوں خیبر ایجنسی اور شمالی وزیرستان میں گزشتہ سال سے پاکستانی فوج نے شدت پسندوں کے خلاف بھرپور کارروائی شروع کر رکھے ہے جس میں اب تک سینکڑوں ملکی و غیر ملکی عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا بتایا جا چکا ہے۔
فوجی آپریشن شروع ہونے کے بعد سے ماضی کی نسبت ملک میں امن و امان کی مجموعی صورتحال میں بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔