اسلام آباد —
پاکستان میں ماضی قریب تک بزرگ افراد کے لیے گھروں سے باہر ’اولڈ ایج ہومز‘ کا تصور تک نہیں تھا لیکن اب سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر بہت سے ایسے ادارے قائم ہو چکے ہیں جہاں بزرگ شہری یا تو با امر مجبوری خود پناہ کے لیے پہنچ جاتے ہیں یا پھر اُن کے خاندان والے اُنھیں وہاں چھوڑ جاتے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا لگ بھگ چھ فیصد بزرگ شہریوں یعنی ساٹھ سال سے زائد عمر کے افراد پر مشتمل ہے جس میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔
ستتر سالہ فضل الرحمٰن نیازی ایک ریٹائرڈ سرکاری افسر ہیں اور وہ ان دنوں بزرگ شہریوں کے لیے لاہور میں قائم اولڈ ایج ہوم کے سربراہ ہیں۔
اُنھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ مربوط خاندانی نظام ختم ہوتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے بزرگوں کو اب اپنے خاندانوں میں وہ مقام حاصل نہیں۔
’’خاندانی نظام اب تار تار ہو گیا اور بزرگوں کو اب وہ مقام حاصل نہیں جو اُنھیں پچاس سال پہلے حاصل تھا۔‘‘
فضل الرحٰمن نیازی کہتے ہیں کہ بزرگ شہریوں کے لیے نا صرف اولڈ ایج ہومز کی ضرورت ہے بلکہ صحت کے ایسے مراکز کی بھی اشد ضرورت ہے جہاں بیمار بزرگ افراد کو علاج کی سہولت فراہم کی جا سکے۔
نائلہ روبی گزشتہ ایک دہائی سے بزرگ شہریوں کے لیے کام کر رہی ہیں اُن کہنا ہے کہ خراب معاشی حالات کے باعث بھی بعض لوگ اپنے بزرگوں کو اولڈ ایج ہومز میں چھوڑ جاتے ہیں۔
اُدھر پاکستان کی سیاسی قیادت نے بزرگ شہریوں کو مشعلِ راہ قرار دیتے ہوئے خصوصی مراعات اور سہولتوں کی فراہمی کے ذریعے اُن کی زندگی کو سہل بنانے کا عزم کیا ہے۔
صدر ممنون حسین اور وزیرِ اعظم نواز شریف نے اپنے الگ الگ پیغامات میں کہا کہ پاکستانی معاشرے نے بزرگوں کے احترام کی روایت برقرار رکھی ہے، جس کی بنیادی وجہ اسلامی تعلیمات اور مربوط خاندانی نظام ہے۔
وزیرِ اعظم نواز شریف نے کہا کہ عالمی دن کا انعقاد بزرگوں کی عزتِ نفس اور اُن کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کی اہمیت کو اُجاگر کرتا ہے۔
تاہم اُن کا کہنا تھا کہ بزرگ شہریوں کی تعداد میں متوقع اضافے کے باعث اُنھیں درپیش مشکلات کے سلسلے میں اندیشے بھی بڑھ رہے ہیں۔
’’بزرگوں کے لیے ذریعہ معاش، رہائش اور طبی سہولتوں جیسے معاملات کی اہمیت بڑھ رہی ہے اور اُنھیں ضروری آرام و سکون کی فراہمی کے لیے ہماری زیادہ توجہ درکار ہو گی۔‘‘
نواز شریف نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک کے برعکس پاکستان میں بزرگوں کو درپیش مسائل کی نوعیت مختلف ہے اور اُن کی حکومت بزرگ شہریوں کی آبادی کے تحفظ کا پختہ عزم رکھتی ہے۔
’’آئیں اس دن کے موقع پر عہد کریں کہ ہم بزرگوں سے متعلق سماجی رویوں میں تبدیلی لائیں گے اور ایسا معاشرہ قائم کریں گے جہاں ہم بزرگوں کے عزت و احترام کو یقینی بناتے ہوئے اپنی اور آنے والی نسلوں کی بہتری کے لیے اُن کی حکمت و دانائی اور تجربات سے بھرپور فائدہ اُٹھائیں گے۔‘‘
اُدھر صدر ممنون حسین نے اپنے بیان میں کہا کہ حکومت بزرگ شہریوں کے مسائل حل کرنے کے عمل میں سنجیدہ ہے اور اس کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔
’’ان کے لیے حکومت کی طرف سے بہت سی مراعات دی گئی ہیں جیسے ٹیکس میں رعایتیں، ریلوے اور ہوائی جہاز کے کرایوں میں رعایت ... علاوہ ازیں ان کے لیے بینکوں، اسپتالوں اور دوسرے بہت سے اداروں میں الگ ڈیسک بنائے گئے ہیں۔‘‘
صدرِ پاکستان نے کہا کہ بزرگ شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے ایک قومی پالیسی کا ڈرافٹ بنا لیا گیا ہے جو جلد ہی پارلیمان سے منظوری کے لیے پیش کر دیا جائے گا۔ اُن کے بقول بزرگ شہریوں کے حقوق کے مزید تحفظ کے لیے قانون سازی کا عمل بھی جاری ہے۔
’’اس سلسلہ میں بنایا گیا مسودہ قانون لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کے زیر غور ہے ... امید ہے کہ وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومتیں بھی بزرگ شہریوں کی بہتری کے لیے مزید ٹھوس اقدامات کریں گی۔‘‘
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا لگ بھگ چھ فیصد بزرگ شہریوں یعنی ساٹھ سال سے زائد عمر کے افراد پر مشتمل ہے جس میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔
ستتر سالہ فضل الرحمٰن نیازی ایک ریٹائرڈ سرکاری افسر ہیں اور وہ ان دنوں بزرگ شہریوں کے لیے لاہور میں قائم اولڈ ایج ہوم کے سربراہ ہیں۔
اُنھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ مربوط خاندانی نظام ختم ہوتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے بزرگوں کو اب اپنے خاندانوں میں وہ مقام حاصل نہیں۔
’’خاندانی نظام اب تار تار ہو گیا اور بزرگوں کو اب وہ مقام حاصل نہیں جو اُنھیں پچاس سال پہلے حاصل تھا۔‘‘
فضل الرحٰمن نیازی کہتے ہیں کہ بزرگ شہریوں کے لیے نا صرف اولڈ ایج ہومز کی ضرورت ہے بلکہ صحت کے ایسے مراکز کی بھی اشد ضرورت ہے جہاں بیمار بزرگ افراد کو علاج کی سہولت فراہم کی جا سکے۔
نائلہ روبی گزشتہ ایک دہائی سے بزرگ شہریوں کے لیے کام کر رہی ہیں اُن کہنا ہے کہ خراب معاشی حالات کے باعث بھی بعض لوگ اپنے بزرگوں کو اولڈ ایج ہومز میں چھوڑ جاتے ہیں۔
اُدھر پاکستان کی سیاسی قیادت نے بزرگ شہریوں کو مشعلِ راہ قرار دیتے ہوئے خصوصی مراعات اور سہولتوں کی فراہمی کے ذریعے اُن کی زندگی کو سہل بنانے کا عزم کیا ہے۔
صدر ممنون حسین اور وزیرِ اعظم نواز شریف نے اپنے الگ الگ پیغامات میں کہا کہ پاکستانی معاشرے نے بزرگوں کے احترام کی روایت برقرار رکھی ہے، جس کی بنیادی وجہ اسلامی تعلیمات اور مربوط خاندانی نظام ہے۔
وزیرِ اعظم نواز شریف نے کہا کہ عالمی دن کا انعقاد بزرگوں کی عزتِ نفس اور اُن کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کی اہمیت کو اُجاگر کرتا ہے۔
تاہم اُن کا کہنا تھا کہ بزرگ شہریوں کی تعداد میں متوقع اضافے کے باعث اُنھیں درپیش مشکلات کے سلسلے میں اندیشے بھی بڑھ رہے ہیں۔
’’بزرگوں کے لیے ذریعہ معاش، رہائش اور طبی سہولتوں جیسے معاملات کی اہمیت بڑھ رہی ہے اور اُنھیں ضروری آرام و سکون کی فراہمی کے لیے ہماری زیادہ توجہ درکار ہو گی۔‘‘
نواز شریف نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک کے برعکس پاکستان میں بزرگوں کو درپیش مسائل کی نوعیت مختلف ہے اور اُن کی حکومت بزرگ شہریوں کی آبادی کے تحفظ کا پختہ عزم رکھتی ہے۔
’’آئیں اس دن کے موقع پر عہد کریں کہ ہم بزرگوں سے متعلق سماجی رویوں میں تبدیلی لائیں گے اور ایسا معاشرہ قائم کریں گے جہاں ہم بزرگوں کے عزت و احترام کو یقینی بناتے ہوئے اپنی اور آنے والی نسلوں کی بہتری کے لیے اُن کی حکمت و دانائی اور تجربات سے بھرپور فائدہ اُٹھائیں گے۔‘‘
اُدھر صدر ممنون حسین نے اپنے بیان میں کہا کہ حکومت بزرگ شہریوں کے مسائل حل کرنے کے عمل میں سنجیدہ ہے اور اس کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔
’’ان کے لیے حکومت کی طرف سے بہت سی مراعات دی گئی ہیں جیسے ٹیکس میں رعایتیں، ریلوے اور ہوائی جہاز کے کرایوں میں رعایت ... علاوہ ازیں ان کے لیے بینکوں، اسپتالوں اور دوسرے بہت سے اداروں میں الگ ڈیسک بنائے گئے ہیں۔‘‘
صدرِ پاکستان نے کہا کہ بزرگ شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے ایک قومی پالیسی کا ڈرافٹ بنا لیا گیا ہے جو جلد ہی پارلیمان سے منظوری کے لیے پیش کر دیا جائے گا۔ اُن کے بقول بزرگ شہریوں کے حقوق کے مزید تحفظ کے لیے قانون سازی کا عمل بھی جاری ہے۔
’’اس سلسلہ میں بنایا گیا مسودہ قانون لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کے زیر غور ہے ... امید ہے کہ وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومتیں بھی بزرگ شہریوں کی بہتری کے لیے مزید ٹھوس اقدامات کریں گی۔‘‘