پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت سپریم کورٹ نے پاناما کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے برطرف کر دیا ہے اور اُنہیں تا حیات کوئی عوامی عہدہ رکھنے یا اسمبلی کی رکنت حاصل کرنے کیلئے نااہل قرار دے دیا ہے۔ نواز شریف کی برطرفی کے ساتھ ہی اُن کی تمام تر کابینہ بھی تحلیل ہو گئی ہے اور فی الوقت پاکستان میں وفاقی حکومت کا کوئی وجود نہیں ہے۔
جمعہ 28 جولائی کو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے مکمل اتفاق رائے سے فیصلہ سناتے ہوئے قومی احتساب بیورو کو یہ حکم بھی دیا ہے کہ وہ نواز شریف، وزیر خزانہ اسحٰق ڈار، مریم نواز، حسن نواز، حسین نواز اور کپٹن صفدر کو شامل تفتیش کر کے اُن کے خلاف چھ ہفتوں کے اندر راولپنڈی/اسلام آباد کی احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کرے۔ عدالت نے احتساب عدالتوں کو حکم دیا ہے کہ ان تما م ریفرینس کا فیصلہ چھ ماہ کے اندر کر دیا جائے۔ عدالت نے کہا کہ ان ریفرنس میں اُس تمام مواد کو شامل کیا جائے جو مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اکٹھا کیا ہے یا پھر ممکنہ طور پر خود قومی احتساب بیورو یا پھر وفاقی تحقیقاتی ادارے FIA کے پاس موجود ہے۔ اس بارے میں بنچ کے حکم میں یہ باتیں بھی شامل ہیں:
1۔ محمد نواز شریف کو مدعا علیہ نمبر 1، مریم نواز شریف (مریم صفدر) کو مدعا علیہ نمبر 6، حسین نواز کو مدعا علیہ نمبر 7 ، حسن نواز کو مدعا علیہ نمبر 8 اور کیپٹن (ریٹائرڈ) محمد صفدر کو مدعا علیہ نمبر 9 قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ بنچ نے قومی احتساب بیورو کو ہدایت کی ہے کہ ریفرینس میں ایون فیلڈ پراپرٹیز (فلیٹ نمبر16, 16-A, 17 اور 17-A سے متعلقہ حقائق شامل کئے جائیں جو اب تک ہونے والی تحقیقات کے نتیجے میں سامنے آئے ہیں اور جن کا ذکر تفصیلی فیصلے میں کیا گیا ہے۔
2۔ مدعا علیہان 1، 7 اور 8 کے خلاف ریفرنس میں عزیزیہ سٹیل کمپنی اور ہل میٹل ایسٹبلشمنٹ کے اُن معاملات کو بھی شامل کیا جائے جو تفصیلی فیصلے میں درج ہیں۔
3۔ ریفرنس میں تفصیلی فیصلے کے پیراگراف نمبر 9 میں کمپنیوں کے حوالے سے بھی مدعاعلیہاں نمبر 1، 7 اور 8 سے متعلق مواد کو شامل کیا جائے جن کی نشاندہی مسٹر جسٹس اعجاز افضل خان، مسٹر جسٹس شیخ عظمت سعید اور مسٹر جسٹس اعجازالحسن نے کی ہے۔ ان کمپنیوں میں فلیگ شپ انوسٹمنٹ لیمٹڈ، ہارٹ سٹون پراپرٹیز لیمٹڈ، کیو ہولڈنگ لیمٹڈ، کوینٹ ایٹن پلیس لیمٹڈ، کوینٹ سیلون لیمٹڈ (سابقہ کوینٹ ایٹن پلیس لیمٹڈ)، کیوینٹ لیمٹڈ، فلیگ شپ سیکورٹیز لیمٹڈ، کوینٹ گلوسسٹر پلیس لیمٹڈ، کوینٹ پیڈینگٹن لیمٹڈ، (سابقہ ریویٹس ایسٹیٹس لیمٹڈ)، فلیگ شپ ڈویلپمنٹس لیمٹڈ، الانا سروسز لیمٹڈ، لینکن ایس اے (بی وی آئی)، چیڈرون انکارپوریٹڈ، اینزبیکر انکارپوریٹڈ اور کیپٹل FZE (دوبئی) شامل ہیں۔
4۔ مدعا علیہ نمبر 10 (یعنی اسحٰق ڈار) کے خلاف ظاہر کی گئی آمدنی کے ذرائع سے بڑھ کر اثاثے اور دولت اکٹھی کرنے پر بھی ریفرنس دائر کیا جائے جیسا کہ تفصیلی فیصلے کے پیراگراف 9 میں معززججوں اعجاز افضل خان، شیخ عظمت سعید اور اعجازالاحسن نے متفقہ طور پر نشاندہی کی ہے۔
5۔ قومی احتساب بیورو مدعا علیہان نمبر1، 6، 7، 8 اور 10 کی طرف سے ظاہر کی گئی آمدنی سے کہیں زیادہ مقدار میں اثاثے اور دولت جمع کرنے سے متعلق شیخ سعید، موسیٰ غنی، کاشف مسعود قاضی، جاوید کیانی اور سعید احمد کو اُن کے بالواسطہ یا بلاواسطہ کردار کے حوالے سے شامل تفتیش کرے۔
6۔ اگر قومی احتساب بیورو کو دوران تفتیش مزید جمع کئے گئے اثاثوں کا علم ہوتا ہے تو اُنسے متعلق بھی ریفرنس داخل کئے جائیں۔
7۔ قومی احتساب عدالت ریفرنس دائر ہونے کی تاریخ کے بعد 6 ماہ کے اندر اس کا فیصلہ سنائے گی۔
8۔ اگر احتساب عدالت کو پتہ چلے کہ مدعا علیہاں یا کسی بھی شخص کی طرف سے کوئی ایسی دستاویز یا شہادت پیش کی گئی ہے جو جعلی طور پر تیار کی گئی ہے تو اُس مدعا علیہ یا شخص کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔
9۔ مدعاعلیہ نمبر 1 یعنی محمد نواز شریف نے 2013 میں ہونے والے عام انتخابات کیلئے کاغذات نامزدگی داخل کرتے وقت انتخابی قوانین کے تحت کیپٹل FZE جبل علی، یو اے ای سے اپنی اُن تنخواہوں کو ظاہر نہیں کیا جو اُن کو واجب الادا تھیں اور اگرچہ وہ وصول نہیں کی گئی تھیں تاہم وہ ایک اثاثے کے طور پر اکٹھی ہوتی رہیں۔ لہذا محمد نواز شریف آئین کے سیکشن 99(f) اور 62 (1) (f) کے تحت صادق اور امین نہیں رہے۔ لہذا اُنہیں قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دیا جاتا ہے۔
10۔ الیکشن کمشن آف پاکستان مدعا علیہ نمبر 1 یعنی میاں محمد نواز شریف کی پارلیمان کی رکنیت سے نااہلی کا نوٹیفکیشن فوری طور پر جارے کرےجس کے بعد وہ پاکستان کے وزیر اعظم نہیں رہیں گے۔
11۔ صدر مملکت سے کہا جاتا ہے کہ وہ ملکی آئین کے مطابق جمہوری عمل کے تسلسل کیلئے ضروری تمام اقدامات اختیار کریں۔
12۔ عزت مآب چیف جسٹس سے گزارش کی جاتی ہے کہ وہ اس عدالت کے ایک معزز جج کو نامزد کریں جو نا صرف اس فیصلے پر اس کی تمام تر روح کے مطابق عملداری کی نگرانی کرے بلکہ قومی احتساب بیورو اور احتساب عدالت کی مندرجہ بالا کارروائیوں کی بھی نگرانی کرے۔
13۔ یہ عدالت قومی تحقیقاتی ٹیم یعنی JIT کے ارکان کی کوششوں کی معترف ہے اور اُن کے مکمل تعاون اور اُن کے ماتحت عملے کے کام کی تعریف کرتی ہے جنہوں نے اس عدالت کے حکم کے مطابق جامع اور تفصیلی رپورٹ مرتب کی۔ اُن کی مدت ملازمت کو تحفظ دیا جائے گا اور نگرانی کرنے والے معزز جج کی پیشگی اجازت کے بغیر ٹرانسفر یا پوسٹنگ سمیت کسی بھی تادیبی کارروائی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
14۔ عدالت جناب نعیم بخاری، جناب مخدوم علی خان، جناب شاہد حامد، خواجہ حارث احمد، جناب سلمان اکرم راجہ، ڈاکٹر طارق حسن، جناب توفیق آصف، شیخ رشید احمد، جناب اشتر اوصاف علی (اٹارنی جنرل آف پاکستان)، جناب وقار رانا (آیڈیشنل اٹارنی جنرل)، جناب وقاص قدیر ڈار (پراسیکیوٹر جنرل NAB) اور جناب اکبر تاڑڑ (پراسیکیوٹر جنرل NAB ) اور اُن کی متعلقہ ٹیموں کے تعاون کیلئے بھی اُن کی شکرگزار ہے۔