منگل کو شروع ہونے والی تین روزہ ملک گیر انسداد پولیو مہم مکمل ہوگئی ہے اور وفاقی وزارت صحت کے عہدیداروں کا کہنا ہے کے اس دوران مقررہ اہداف کامیابی سے حاصل کیے گئے ہیں۔
لیکن دوسری طرف وہ اس بات کا اعتراف بھی کرتے ہیں کہ شورش زدہ قبائلی علاقوں کے کچھ حصوں میں سکیورٹی کی صورت حال خراب ہونے کی وجہ سے بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلائے جا سکے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ قبائلی پٹی ہی وہ علاقہ ہے جہاں رواں سال اس بیماری نے سب سے زیادہ بچوں (89) کو متاثر کیا۔
وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں وفاقی وزارت صحت کے ایک عہدیدار اور حفاظتی مہم کے منیجر الطاف بوسن نے کہا ” سکیورٹی کے مسائل کی وجہ سے اس بار جن علاقوں تک ہماری رسائی نہیں ہو سکی ان تک آئندہ مہم کے دوران فوری طور پر پہنچا جائے گا اگر اگلی بار بھی ایسا ممکن نا ہو سکا تو دوبارہ کوشش کی جائے گی اس طرح یہ عمل جاری رکھا جائے گا اور پولیو کے خاتمے کے لئے نچلی سے نچلی سطح تک پہنچا جائے گا ۔“
حالیہ مہم کے دوران تقریبا تین کروڑ بیس لاکھ بچوں کو حفاظتی قطرے پلانے کا ہدف تھا اور اس مقصد کے لیے اٹھا سی ہزار ٹیمیں تشکیل دی گئی تھیں جنہوں نے گھر گھر جا کر پانچ سال سے کم عمر بچوں کو پولیو سے حفاظت کے قطرے پلائے۔
وزارت صحت کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ پولیو کی حفاظتی مہم کے بارے میں ملک کے دور دراز علاقوں میں لوگوں میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے سینکڑوں علماء حضرات کی خدمات بھی حاصل کی گئی تھیں جنھوں نے عوام میں شعور پیدا کرنے میں موثر کردار ادا کیا۔
ڈاکٹر الطاف بوسن نے کہا کہ پولیو مہم کے دوران کل کتنے بچوں کو حفاظتی قطرے پلائے گئے اس بارے میں حتمی اعداد و شمار آئندہ ایک ہفتے کے دوران آزاد جائزے کے بعد سامنے آئیں گے تاہم ان کا کہنا تھا کہ وزارت کے ابتدائی جائزوں سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مہم بہت کامیاب رہی۔
انھوں نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ سال 2011ء کے دوران ملک سے اس بیماری کے خاتمے کا ہدف حاصل کر لیا جائے گا۔
پاکستان ، بھارت، افغانستان اور نائجیریا دنیا کہ وہ چار ملک ہیں جہاں ابھی تک پولیو کا خاتمہ نہیں کیا جا سکا۔ سرکاری ااعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں رواں سال پولیو نے تقریباً ایک سو چالیس بچوں کو متاثر کیا اور یہ تعداد باقی تین ملکوں کی نسبت سب سے زیادہ ہے۔
بچوں کے لئے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کے مطابق 1994ء میں پاکستان میں سالانہ تیس ہزار بچے پولیو سے مفلوج ہو رہے تھے۔ لیکن دس سال کی مربوط کوششوں کے بعد یہ تعداد سو سے بھی نیچے لائی گئی اور ادارے کے مطابق اگر پر عزم کوششیں کی جائیں تو اس کا مکمل خاتمہ ممکن ہے۔