پاکستان میں ایک نیا سیاسی اتحاد بہت تیزی سے وجود پارہا ہے تاہم اس کی جانب ابھی کم لوگ توجہ دے پائے ہیں۔ یہ ہے دائیں بازو کی سیاسی و مذہبی جماعتوں کا اتحاد”ملی یکجہتی کونسل“۔
اس اتحاد کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اور اس اتحاد کی کیاسیاسی مقاصد ہوسکتے ہیں؟ نیز یہ کہ اس کا مستقبل کیا ہوا؟ اس حوالے سے نمائندے نے مختلف سینئیر سیاسی ورکرزاور سیاسی تجزیہ نگاروں اور مبصروں سے تبادلہ خیال کیا ۔زیر نظر تحریر انہی سیاسی ورکرز کی آراء کی روشنی میں ترتیب دی گئی ہے۔
ایک غیر جانبدار مبصر نے وی او اے سے تبادلہ خیال میں بتایا کہ یہ بالکل ایم ایم اے یعنی متحدہ مجلس عمل کی طرزکا اتحاد ہے۔ گو کہ ابھی اس کے بارے میں خود اتحادی جماعتوں کا کہنا ہے کہ یہ غیر سیاسی اتحاد ہوگا لیکن پاکستان کی تاریخ کو مدنظر رکھیں تو ایسا ممکن نظر نہیں آتا کہ کوئی اتحاد جس کے تمام ارکان سیاسی ہوں ، وہ غیر سیاسی بھی رہا ہو۔
اس اتحاد کا نام پچھلے مہینے کی22تاریخ کو اس وقت پہلی مرتبہ سامنے آیا جب ملک کی اہم سیاسی و دینی جماعتوں نے ملک میں مختلف مسالک کے درمیان اتحاد و یکجہتی کے قیام‘ فرقہ واریت کے خاتمے‘ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عملدرآمد ، اسلامی معاشرے کے قیام اور متحدہ مجلس عمل کے انتخابی پلیٹ فارم اور دفاع پاکستان کونسل کی موجودگی اور افادیت کا اعتراف کرتے ہوئے ”ملی یکجہتی کونسل “ کے نام سے ایک اتحاد بنانے کا اعلان کیا تاہم اسے ’بحالی‘ کانام دیا گیا۔
سابق امیر جماعت اسلامی و صدر متحدہ مجلس عمل قاضی حسین احمد کو تنظیمی ڈھانچہ بنانے والی کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا۔انہوں نے ہی ”ملی یکجہتی کونسل “کی بحالی کا اعلان کیا۔ یہ اعلان انہوں نے باقاعدہ ایک پریس کانفرنس میں کیا۔
اتحاد کے دیگر ارکان میں امیر جماعت اسلامی سید منور حسن جمعیت علمائے اسلام ف کے مرکزی رہنما حافظ حسین احمد، پیر عبدالشکور نقشبندی، محمد یحییٰ مجاہد، صاحبزادہ سلطان احمد علی، محمد خان لغاری، صاحبزادہ محمود الحسن نقشبندی، علامہ ساجد علی نقوی، لیاقت بلوچ، علامہ ابتسام الٰہی ظہیر وغیرہ شامل ہیں۔
چار جون کو اس اتحاد کے حوالے سے ایک اور اہم پیش رفت ہوئی جس نے واضح کیا کہ ”ملی یکجہتی کونسل“ غیرسیاسی نہیں ہوگی ۔ اس دن قاضی حسین کو تنظیم کا متفقہ صدر اور حافظ حسین احمد کو سیکرٹری جنرل منتخب کرلیا گیا۔ واضح رہے کہ قاضی حسین احمد ایم ایم اے کے صدر اور حافظ حسین احمد ا یم ایم اے کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری کے عہدے پر فائز تھے۔ان افراد کا پوری کیریئر سیاسی ہے، لہذا اس اقدام کے بعد یہ بات تقریباً یقینی ہے یہ بہت جلد یہ اتحاد سیاسی سرگرمیاں بھی شروع کردے گا۔
مذکورہ ناموں کے علاوہ ملی یکجہتی کونسل کے دیگر ارکان کے ناموں پر غور کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ یہ تمام ارکان کسی نہ کسی سیاسی و دینی جماعت سے منسلک رہے ہیں۔ کونسل کے ارکان کی ایک بڑی تعداد کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے ۔
ماضی میں اسی قسم کے دینی جماعتوں کے اتحاد انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے ہیں۔ چونکہ پاکستان کی تاریخ میں ایک مرتبہ بھی کسی سیاسی جماعت کی حکومت برسر اقتدار نہیں آسکی لہذا ان جماعتوں کو آپس میں یا دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ ملکر اقتدار میں شرکت کرنا پڑی ہے لہذا ایسے اتحاد الیکشن میں نشستیں جیت کر دیگر سیاسی جماعتوں سے اتحاد کرتی رہی ہیں۔ چونکہ پاکستان میں عام انتخابات سر پر ہیں لہذا ایسے اتحاد بننا ایک فطری عمل ہے ۔
کچھ مبصرین کے نزدیک یہی ’ملی یکجہتی کونسل ‘ جو ابھی غیر معروف ہے ، کسی بھی ایشو کو پکڑ کر بہت تیزی سے بڑی جماعت بن کرسامنے آسکتی ہے اور اس بات پرکسی کو کوئی حیرانی نہیں ہونی چاہئے کہ آنے والے انتخابات میں یہ کونسل حکمراں اتحاد اور خود اپوزیشن کے لئے بھی ایک بڑا اور سخت چیلنج ثابت ہوسکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
مقبول ترین
1