پاکستان میں جمہوری حکومت کے قیام کو ساڑھے تین سال گزر چکے ہیں لیکن اس جمہوری حکومت کی تائید کرنے والی کون کون سی جماعتیں اور کون کون سے رہنما ہیں ، پاکستانی عوام اور مبصرین آج تک اس بات کا پوری طرح تعین کرنے سے قاصر ہیں ۔ حالات و واقعات گواہ ہیں کہ ان تین سالوں میں تائیدی جماعتوں اور رہنماوٴں نے اس تیزی سے اور بار بار حکومت کا ساتھ چھوڑا اور پکڑا ہے کہ اس بات کا اندازہ لگانا مشکل ہے کہ کب وہ جماعت یا اس کا کوئی ایک رہنما اس کا حریف بن گیا اور کب مخالف۔ اس پیچیدگی کو دیکھتے ہوئے ماہرین سیاست اشارے دے رہے ہیں کہ ملک میں کوئی عوامی تحریک جنم لے سکتی ہے۔
رواں ماہ کا آغاز ذوالفقار مرزا کے انکشافات کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی گہما گہمی کے دوران ہواجس میں ایم کیو ایم الزامات کی لپیٹ میں تھی تاہم ایم کیو ایم کے رہنماالطاف حسین کے اے این پی اور جماعت اسلامی پر الزامات نے اس بحث میں جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کیا اور صورتحال اس نہج پر جا پہنچی کہ حکومت میں موجود اے این پی اور ایم کیو ایم ایک دوسرے کو دہشت گرد جماعتیں قرار دے کر پابندی کا مطالبہ کرنے لگیں ۔
دونوں جماعتوں کا ٹکراؤ کوئی نئی بات نہ تھی بلکہ جب سے حکمراں جماعت پیپلزپارٹی نے انہیں اپنا حلیف بنایاتھا اس وقت سے ہی ایک دوسرے پر الزامات ان کا وطیرہ رہا ۔ دونوں جماعتوں کا ذوالفقار مرزا کی پریس کانفرنس کے بعد 18 دن تک ایک دوسرے پر الزام تراشی کا سلسلہ جاری رہا تاہم اچانک اے این پی سے تعلق رکھنے والے وزیراعلیٰ خیبر پختونخواہ کے صرف ایک بیان کے بعد ایم کیو ایم کے دل میں اے این پی کیلئے ایسا نرم گوشہ پیدا ہو گیا کہ وہ پھرسے اے این پی کے ساتھ بغلگیر ہونے کیلئے تیار ہے۔
دوسری جانب دو ماہ بیس دن گزر چکے ہیں لیکن حکمراں جماعت پیپلزپارٹی نے تاحال ایم کیو ایم کے وزراء کے استعفیٰ قبول نہیں کیے ۔ اس کی مثال دنیا کے کسی دوسرے ملک میں ملنا انتہائی مشکل ہے ۔ کسی کو نہیں معلوم کہ ایم کیو ایم اپوزیشن میں ہے یا حکومت میں ۔ ایم کیو ایم کا موقف ہے کہ وہ اپوزیشن میں ہے جبکہ پیپلزپارٹی کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی حکومت کا حصہ ہے۔ کبھی تو پیپلزپارٹی کے وزراء کی جانب سے ایم کیو ایم کی حکومت میں شمولیت کے خواب دیکھے جاتے ہیں اور کبھی پیش گوئیاں کی جاتی ہیں۔ اور اگر خوابوں کی تعبیر تعطل کا شکار ہو جائے تو ایم کیو ایم کی حکومت میں شمولیت پر تحفظات دور کرنے کے لئے رحمن ملک بھی اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی کی خدمت میں حاضر ہو جاتے ہیں۔
دوسری جانب اگر بات کی جائے پاکستان کی دوسری سب سے بڑی اور اپوزیشن جماعت مسلم لیگ نواز کی تو کسی بھی معاملہ پر اس کا بھی لائحہ عمل واضح نہیں ، نواز شریف کبھی تو صدر آصف علی زرداری پر تنقید کرتے نظر آ رہے ہیں توکبھی صدر آصف علی زرداری ان پر گرج رہے ہوتے ہیں ۔ آزاد کشمیر الیکشن مہم میں نواز شریف کی باتوں کا صدر زرداری نے نوڈیرو میں ایسا جواب دیا کہ چار سوخاموشی پھیل گئی لیکن دو ماہ پچیس دنوں بعد لندن میں نواز شریف نے صدر آصف علی زرداری کوپھولوں کا گلدستہ پیش کر کے پھر سے نئے تعلقات کی بنیاد رکھ دی۔
اس تمام تر تناظر میں ملکی سیاست کامستقبل کیا ہے شاید یہ سیاستدان بھی نہیں جانتے تاہم اس تمام تر صورتحال میں عوام میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ رواں ماہ ملکی سیاست میں ہونے والی تبدیلیوں کے مستقل قریب پر انتہائی گہرے اثرات دیکھے جا رہے ہیں اور مبصرین کی اکثریت اس بات پر متفق دکھائی دیتی ہے کہ مہنگائی ، بے روزگاری ، لوڈ شیڈنگ ، دہشت گردی اورقدرتی آفات کا شکار عوام انتہائی مشتعل ہے اورکسی وقت کوئی کسی بھی چنگاری سے شعلہ بھڑک سکتا ہے اور ایسی چنگاریاں ملک کے کئی کونوں پر سلگنا شروع ہوگئی ہیں۔
پشاورشہر کےکئی سیاسی و سماجی کارکنوں نے ملک میں جاری بدعنوانی کے خاتمے اور سیاسی پارٹیوں میں جمہوریت کیلئے جمعہ سے ملک گیر ” بیدار پاکستان “ کے نام سے تحریک شروع کرنے کا اعلان کر دیا ، جس کے پہلے مرحلے میں پشاور ہائی کورٹ اور صوبائی اسمبلی کے سامنے علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔