پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں حکومت مخالف دھرنوں کا پانچواں ہفتہ جاری ہے اور تاحال اس کشیدگی کو کم کرنے کے لیے مذاکرات کی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔
اس کشیدگی پر بحث اور اس معاملے کا سیاسی حل تلاش کرنے کے لیے پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بھی جاری ہے لیکن پارلیمنٹ بھی اب تک اس کا کوئی حل تجویز نہیں کر سکی۔
جمعرات کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں اس بات کی گونج رہی کہ ان دھرنوں کی وجہ سے ملکی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان ہو چکا ہے جب کہ اسی احتجاج کی وجہ سے چین کے صدر ژی جنپنگ کو بھی اپنا دورہ اسلام آباد ملتوی کرنا پڑا۔
وزیراعظم نواز شریف کے بھائی اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بھی جمعرات کو سیلاب سے متاثر علاقوں کے دورے کے موقع پر اسلام آباد میں احتجاج کرنے والی جماعتوں عوامی تحریک اور تحریک انصاف کی قیادت پر الزام لگایا کہ اُن کے مظاہروں کی وجہ سے چینی صدر پاکستان نہیں آئے۔
’’چین کے صدر نے 15 ستمبر کو پاکستان آنا تھا لیکن جنہوں نے یہ ڈی چوک پر دھرنے دیئے ہیں کہ اُنھوں نے چین کے صدر کا دورہ ملتوی کرایا۔‘‘
اُدھر تحریک انصاف کے ایک سینیئر رہنما جہانگیر ترین نے جمعرات کو ایک مرتبہ پھر کہا کہ وہ اپنے مطالبات منوائے بغیر اسلام آباد سے نہیں جائیں گے۔
سیاسی مسئلے کے حل کے لیے رابطے جمعرات کو ایک مرتبہ پھر شروع ہوئے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی قیادت میں مختلف سیاسی جماعتوں پر مشتمل ’سیاسی جرگے‘‘ نے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے رہنماؤں سے ملاقات کی۔
ملاقاتوں کے بعد سراج الحق نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ ’’ تینوں فریقوں سے ایک بار پھر ہم اپیل کرتے ہیں کہ مذاکرات کے راستے پر آ کر کوئی اقدام کریں۔‘‘
عمران خان اور طاہرالقادری اپنے ہزاروں حامیوں کے ساتھ اسلام آباد میں حکومت مخالف احتجاج کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان 2013ء کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری کے مطالبات میں بھی اگرچہ وزیراعظم کا استعفیٰ شامل ہے لیکن اُن کا کہنا ہے کہ وہ ملک میں انقلاب چاہتے ہیں۔
حکومت اور پارلیمان میں موجود بیشتر سیاسی جماعتیں یہ کہہ چکی ہیں کہ وزیراعظم کے استعفے کے مطالبے پر بات چیت نہیں ہو گی۔