نواز شریف انتطامیہ اور حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے مذاکرات کاروں کے درمیان وزیراعظم کے استعفے پر پیدا ہونے والے ڈیڈ لاک کے بعد حکومت کی طرف سے وفاقی وزیر نے ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ ملاقات کی جس میں ان سے کہا گیا کہ حکومت پاکستان عوامی تحریک سے مذاکرات شروع کرنا چاہتی ہے۔
اتوار کو اسلام آباد میں ملاقات کے بعد وفاقی وزیر برائے ریلوے خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ ’’اگر خدا کو منظور ہوا تو مذاکرات شروع ہو جائیں گے‘‘
عوامی تحریک کے اعلیٰ عہدیدار لئیق احمد نے بھی کہا کہ ان کی جماعت نے کبھی بھی ’بامعنی مذاکرات‘ کے عمل سے انکار نہیں کیا تاہم لاہور میں ہلاک ہونے والے کارکنوں کا وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے مطالبے سے ’’پیچھے نہیں ہٹا‘‘ جائے گا۔
ادھر سیاسی بحران کے فوری حل کے لیے دیگر سیاسی قائدین نے بھی اپنے رابطے تیز کردیے اور جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق نے اسپیکر قومی اسمبلی سے ملاقات کرکے انہیں تحریک انصاف کے قانون سازوں کے استعفوں کی منظوری میں تاخیر کی درخواست کی۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں فریقین آئین کی پاسداری اور جمہوریت کے استحکام پر متفق ہیں تو مذاکرات سے معاملات حل ہو سکتے ہیں۔
قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق نے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ حکومت اور تحریک انصاف کو سیاسی بحران کے حل کے لیے جلد سے جلد اقدامات اور فیصلے کرنا ہوں گے۔
’’جانچ پڑتال میں کچھ دن تو لگ جائیں گے۔ ابھی میرے پاس آئے ہیں۔ ابھی دیکھوں گا کتنے آئے ہیں؟ کس نے دیے ہیں؟ اراکین کو خط لکھے جا سکتے ہیں یا فون کیے جا سکتے ہیں کہ آجائیں۔ تو وقت لگے گا مگر مکمل طور پر میں موخر نہیں کر سکتا۔‘‘
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اپنے کارکنوں سے خطاب میں اتوار کو بتایا کہ حکومت ان کی طرف ایک اور وفد بھجوانے کا ارادہ رکھتی ہے تاہم ان کا کہنا تھا
’’ساری دنیا میں پیلے آپ استعفیٰ دیتے ہیں اگر تحقیقات آپ کے حق میں آئے آپ واقعے جائز انتخابات جیتے ہیں آپ واپس آجائیں۔ یہ بہت مثبت راستہ ہے۔ اس سے پیچھے ہم نہیں ہٹنے والے۔ آپ کے استعفے کے بغیر کوئی بات چیت نہیں ہو سکتی۔‘‘
ادھر نواز انتظامیہ کے پختون قوم پرست اتحادی محمود خان اچکزئی نے احتجاج کرنے والی سیاسی جماعتوں کے مطالبات کے خلاف صوبہ بلوچستان میں عوامی مہم چلانے کا اعلان کر دیا ہے۔
’’طالبان صوفی محمد آج جیل میں ہے کیونکہ اس نے کہا تھا کہ میں آئین کو نہیں مانتا۔ میں ووٹ اور جمہوریت کو کفر سمجھتا ہوں۔ وزیراستان میں جو کچھ ہورہا اگر وہاں سے لوگ چل پڑیں، باجوڑ سے جنوبی وزیرستان تک، کہ جو تماشہ لگایا ہوا ہے، پھر کیا ہوگا۔‘‘
سیاسی مبصر حسن عسکری رضوی احتجاج کرنے والی جماعتوں کی مخالفت میں ریلی سے متعلق کہتے ہیں۔
’’کاؤنٹر ریلی کا جو خیال ہے اگر اس راستے پر گئے تو میرے خیال میں سب سے زیادہ نقصان حکومت کو ہوگا۔ وقت کی ضرورت فیصلہ کرتی ہے فوج اپنے اتحادی بدلتی رہتی ہے۔ تاہم بنیادی طور پر فوج نے خود مختار رویہ رکھا اور آج بھی وہی کردار ادا کررہی ہے اور کوشش ہوگی کہ امن و امان کی صورتحال خراب نا ہو۔‘‘
محمود اچکزئی سے پہلے چند چھوٹی مذہبی جماعتوں نے بھی حکومت کی حمایت میں ریلیاں نکالیں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر اس سیاسی مسئلے کو مذہبی یا فرقہ وارانہ رنگ دیا گیا تو ملک میں تشدد و انتشار کے امکانات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔