اسلام آباد —
پاکستان کی عدالت عظمیٰ کے حکم پر ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں نئی انتخابی حلقہ بندیوں کے لیے الیکشن کمیشن نے جمعرات کو اسلام آباد میں ایک اہم اجلاس طلب کیا جس میں مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور اراکین نے شرکت کی۔
حکمران اتحاد میں شامل اور کراچی کی سب سے بڑی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے ایک بار پھر کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام قانون اور آئین کے منافی ہے۔
الیکشن کمیشن کے اجلاس کے بعد ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار نے صحافیوں کو بتایا کہ انھوں نے ایک بار پھر اس اقدام کو مسترد اور چیلنج کیا ہے۔
’’ایم کیو ایم نے اسے نا انصافی، امتیاز اور ظلم سے تعبیر کیا، کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ آئین و قانون کے مطابق مردم شماری کے بغیر حلقہ بندیوں کا انعقاد ممکن نہیں۔ آئین و قانون میں ایسی کوئی شق موجود نہیں۔‘‘
فاروق ستار نے کہا کہ 1998ء کی مردم شماری کے بعد 2001ء میں کی گئی حلقہ بندیوں کے تحت دو عام اور ایک مرتبہ ضلعی حکومت کے انتخابات ہو چکے ہیں اور اگر سپریم کورٹ یا الیکشن کمیشن نئی حلقہ بندیاں کرانا چاہتا ہے تو پہلے مردم شماری کرائی جائے۔ بصورت دیگر انھوں نے اس اقدام کو قبل از انتخاب دھاندلی سے تعبیر کیا۔
حزب مخالف کی جماعت مسلم لیگ ن کے رہنما اقبال ظفر جھگڑا نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ اجلاس میں شریک جماعتوں کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ نئی حلقہ بندیاں ہونی چاہیئں۔
’’اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے قوم کے وسیع تر مفاد میں ایک فیصلہ دیا جو حالات بنے ہوئے ہیں کراچی میں ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کو ٹھیک کرنے کے لیے ایک ضروری قدم یہ سمجھا گیا کہ جو شکایتیں ہیں لوگوں کی اگر ان کو ایڈریس نہیں کریں گے تو جو بنیادی مقصد ہے آزاد اور شفاف انتخابات کا وہ حاصل نہیں ہوسکے گا۔‘‘
چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم نے اجلاس میں شریک تمام سیاسی جماعتوں سے کہا کہ وہ کراچی میں نئی حلقہ بندیوں سے متعلق اپنی تجاویز ایک ہفتے میں کمیشن میں جمع کرا دیں تاکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اس پر مزید پیش رفت کی جا سکے۔
اس سے قبل سرکاری میڈیا کے مطابق فخر الدین ابراہیم نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق کراچی میں نئی حلقہ بندیاں کرائی جائیں اور یہ تمام عمل آئین کے مطابق کیا جائے گا۔
حکمران اتحاد میں شامل اور کراچی کی سب سے بڑی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے ایک بار پھر کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام قانون اور آئین کے منافی ہے۔
الیکشن کمیشن کے اجلاس کے بعد ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار نے صحافیوں کو بتایا کہ انھوں نے ایک بار پھر اس اقدام کو مسترد اور چیلنج کیا ہے۔
’’ایم کیو ایم نے اسے نا انصافی، امتیاز اور ظلم سے تعبیر کیا، کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ آئین و قانون کے مطابق مردم شماری کے بغیر حلقہ بندیوں کا انعقاد ممکن نہیں۔ آئین و قانون میں ایسی کوئی شق موجود نہیں۔‘‘
فاروق ستار نے کہا کہ 1998ء کی مردم شماری کے بعد 2001ء میں کی گئی حلقہ بندیوں کے تحت دو عام اور ایک مرتبہ ضلعی حکومت کے انتخابات ہو چکے ہیں اور اگر سپریم کورٹ یا الیکشن کمیشن نئی حلقہ بندیاں کرانا چاہتا ہے تو پہلے مردم شماری کرائی جائے۔ بصورت دیگر انھوں نے اس اقدام کو قبل از انتخاب دھاندلی سے تعبیر کیا۔
حزب مخالف کی جماعت مسلم لیگ ن کے رہنما اقبال ظفر جھگڑا نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ اجلاس میں شریک جماعتوں کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ نئی حلقہ بندیاں ہونی چاہیئں۔
’’اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے قوم کے وسیع تر مفاد میں ایک فیصلہ دیا جو حالات بنے ہوئے ہیں کراچی میں ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کو ٹھیک کرنے کے لیے ایک ضروری قدم یہ سمجھا گیا کہ جو شکایتیں ہیں لوگوں کی اگر ان کو ایڈریس نہیں کریں گے تو جو بنیادی مقصد ہے آزاد اور شفاف انتخابات کا وہ حاصل نہیں ہوسکے گا۔‘‘
چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم نے اجلاس میں شریک تمام سیاسی جماعتوں سے کہا کہ وہ کراچی میں نئی حلقہ بندیوں سے متعلق اپنی تجاویز ایک ہفتے میں کمیشن میں جمع کرا دیں تاکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اس پر مزید پیش رفت کی جا سکے۔
اس سے قبل سرکاری میڈیا کے مطابق فخر الدین ابراہیم نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق کراچی میں نئی حلقہ بندیاں کرائی جائیں اور یہ تمام عمل آئین کے مطابق کیا جائے گا۔