پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کے چار سال مکمل ہونے کو ہیں مگر اس تمام عرصے کے دوران اس کو اپنی کارکردگی پر اپوزیشن جماعتوں اور عوامی حلقوں کی طرف سے کڑی تنقید کا سامنا رہا ہے۔
لیکن قانون سازی کے فروغ اور شفافیت کے موضوع پر سرگرم عمل ایک غیر سرکاری تنظیم ’پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلے ٹیو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپرینسی‘ (پلڈیٹ) نے جمہوریت کے میعار سے متعلق اپنی تازہ ترین جائزہ رپورٹ میں کہا ہے کہ حکومت کی کارکردگی سے قطع نظر 2011ء میں تمام تر مشکلات اور کمزوریوں کے باوجود ملک میں جمہوریت کو فروغ حاصل ہوا۔
عوامی جائزوں سے متعلق ایک غیر سرکاری تنظیم گیلپ پاکستان کے سربراہ اعجاز شفیع گیلانی نے رواں ہفتے رپورٹ کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جمہوری نظام میں بہتری کی وجوہات میں 18 ویں آئینی ترمیم پر عمل درآمد کے علاوہ عدلیہ اور میڈیا کا مثبت کردار شامل ہیں۔
’’گزشتہ سالوں میں ان سب چیزوں پر قدم آگے بڑھے ہیں اس ہی لیے … جمہوریت بھی آگے بڑھی ہے۔‘‘
قانونی ماہر اور سابق گورنر پنجاب شاہد حامد پلڈیٹ کی رپورٹ مرتب کرنے والی 25 رکنی ٹیم کا حصہ تھے۔ اُنھوں نے ملک میں جمہوری نظام کے تسلسل پر مکمل اتفاق کو قابل ستائش قرار دیا۔
’’آج کوئی بھی ایسا ادارہ نہیں ہے جو یہ کہتا ہو کہ جمہوری نظام کی بساط لپیٹ دی جائے۔ خاص طور پر اپوزیشن (جماعتوں) نے دانشمندی کا مظاہرہ کیا ہے اور مختلف اوقات میں واضح طور پر کہا ہے کہ ہم کوئی غیر جمہوری اقدام نہیں ہونے دیں گے۔‘‘
حکمران اتحاد میں شامل مسلم لیگ (ق) کے رکن قومی اسمبلی ریاض فتیانہ نے بڑی سیاسی جماعتوں میں موروثیت کو جمہوری نظام میں پائی جانے والی کمزوریوں کی ایک وجہ قرار دیتے ہوئے تجویز پیش کی کہ متعلقہ قوانین میں رد و بدل کے بعد سیاسی جماعتوں کے انتخابات کی ذمہ داری بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان کو سونپی جائے۔
پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی رکن پارلیمان سمینا مشتاق کا کہنا تھا کہ عوام پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پارلیمان میں اپنی نمائندگی کے لیے موزوں سیاست دانوں کا انتخاب کریں۔
’’ہمارا (عوام کا) بھی یہ فرض ہے کہ ہم ایسے لوگوں کو چنیں جو پارلیمان میں ہمارے مسائل کو اُجاگر کریں اور ان کا حل بھی ڈھونڈ کر ہم تک لائیں۔‘‘
مبصرین کا ماننا ہے کہ موجودہ حالات میں حکمران اتحاد کو درپیش سنگین ترین مسئلہ بدعنوانی کے الزامات ہیں، لیکن عوام کے منتخب نمائندوں نے اس بارے میں کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے ہیں، جب کہ پارلیمان میں پیش کیا گیا احتساب سے متعلق مجوزہ قانون بھی اراکین کی توجہ کا منتظر ہے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت کا کہنا ہے کہ بدعنوانی کے خاتمے کے لیے تمام تر کوششیں جاری ہیں اور قومی احتساب بیورو کے چیئرمین کی حالیہ تعیناتی کے بعد اُن میں تیزی آئی ہے۔