اسلام آباد —
پاکستان میں پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کی پانچ سالہ مدت کے خاتمے کے بعد آئندہ چند روز میں وفاق اور صوبوں میں عبوری حکومتوں کے قیام کے لیے مشاورتی عمل قدرے تیز ہوگیا ہے اور وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے ہفتے کو اپنی سرکاری رہائش گاہ پر چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور بلوچستان کے گورنر سے ملاقات کی۔
وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کا وزارء اعلیٰ اور بلوچستان کے گورنر کو ملاقات کے لیے بلانے کا مقصد حکومت کا وفاق اور صوبوں میں نگران حکومتوں کے قیام کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش ہے۔
ملاقات کے بعد وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ وزیر اعظم کی تجویز پر وزارء اعلیٰ نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی روز کرانے پر اصولی طور پر اتفاق کیا۔ بیان کے مطابق انتخابات ایک ہی روز کرانے سے ملک میں سیاسی ہم آہنگی کو فروغ ملے گا۔۔
پارلیمان کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی کی تحلیل ہفتے اور اتوار کی شب متوقع ہے اور حکومت اور حزب اختلاف کی جانب سے نگران وزیراعظم کے لیے ناموں کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔
تاہم دونوں اطراف سے ایک دوسرے کے مجوزی ناموں پر خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ قمر زمان کائرہ نے اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اور حزب اختلاف میں اس معاملے پر کوئی ڈیڈلاک نہیں تاہم حزب اختلاف کی طرف سے عبوری وزیراعظم کے لیے تجویز کیے گئے اشخاص پیپلز پارٹی کے لیے غیر جانبدار نہیں ہو سکتے۔
’’جسٹس زاہد کے برادرنسبتی کے قتل میں صدر آصف علی زرداری کو نامزد کیا گیا تھا جبکہ پلیجو صاحب کے صاحبزادے پیپلز پارٹی کے خلاف ایک صوبے میں انتخابی اتحاد کی سربراہی کر رہے ہیں تو اس لیے میں نے کہا تھا کہ قائد حزب اختلاف کی طرف سے نام نہیں مذاق کیا گیا ہے۔‘‘
وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ عبوری وزیر اعظم کے لیے مجوزہ نام اگر پارلیمانی کمیٹی یا چیف الیکشن کمیشن کو بھیجے گئے تو وہ بھی فیصلہ کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے خدشات کو مدنظر رکھے۔ قائد ایوان اور حزب اختلاف میں کسی نام پر اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں آئین کے مطابق معاملہ پارلمانی کمیٹی کو بھیجا جائے گا اور وہاں بھی عدم اتفاق کی صورت میں الیکشن کمیشن اس کا فیصلہ کرے گا۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان پہلے ہی حکومت کے نامزد کردہ ناموں کو مسترد کر چکے ہیں اور حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ترجمان مشاہد اللہ کا کہنا ہے کہ وہ اپنے تجویز کردہ ناموں میں تبدیلی نہیں کریں گے۔
مقامی ذرائع ابلاغ میں یہ قیاس آرائیاں ہورہی ہیں کہ پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تجویز کردہ عبوری وزیر علٰیٰ کے امیداوار کی تقرری پر اگر پیپلز پارٹی اتفاق کرتی ہے تو میاں نواز شریف کی جماعت وفاق میں حکومتی امیدوار کو تسلیم کرے گی۔ مگر قمر زمان کائرہ نے اس تاثر کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ’’سیاست میں کوئی لے دے نہیں یہ صرف پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نہیں بلکہ تمام سیاسی قوتوں کے فیصلے ہیں لیکن ہم سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔‘‘
پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ قومی اسمبلی کے پانچ سالہ مدت مکمل ہونے کے بعد انتخابات مئی میں متوقع ہے اور تمام اداروں نے اس کے بر وقت انعقاد کی بار ہا یقین دہانی کرائی ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کا وزارء اعلیٰ اور بلوچستان کے گورنر کو ملاقات کے لیے بلانے کا مقصد حکومت کا وفاق اور صوبوں میں نگران حکومتوں کے قیام کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش ہے۔
ملاقات کے بعد وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ وزیر اعظم کی تجویز پر وزارء اعلیٰ نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی روز کرانے پر اصولی طور پر اتفاق کیا۔ بیان کے مطابق انتخابات ایک ہی روز کرانے سے ملک میں سیاسی ہم آہنگی کو فروغ ملے گا۔۔
پارلیمان کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی کی تحلیل ہفتے اور اتوار کی شب متوقع ہے اور حکومت اور حزب اختلاف کی جانب سے نگران وزیراعظم کے لیے ناموں کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔
تاہم دونوں اطراف سے ایک دوسرے کے مجوزی ناموں پر خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ قمر زمان کائرہ نے اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اور حزب اختلاف میں اس معاملے پر کوئی ڈیڈلاک نہیں تاہم حزب اختلاف کی طرف سے عبوری وزیراعظم کے لیے تجویز کیے گئے اشخاص پیپلز پارٹی کے لیے غیر جانبدار نہیں ہو سکتے۔
’’جسٹس زاہد کے برادرنسبتی کے قتل میں صدر آصف علی زرداری کو نامزد کیا گیا تھا جبکہ پلیجو صاحب کے صاحبزادے پیپلز پارٹی کے خلاف ایک صوبے میں انتخابی اتحاد کی سربراہی کر رہے ہیں تو اس لیے میں نے کہا تھا کہ قائد حزب اختلاف کی طرف سے نام نہیں مذاق کیا گیا ہے۔‘‘
وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ عبوری وزیر اعظم کے لیے مجوزہ نام اگر پارلیمانی کمیٹی یا چیف الیکشن کمیشن کو بھیجے گئے تو وہ بھی فیصلہ کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے خدشات کو مدنظر رکھے۔ قائد ایوان اور حزب اختلاف میں کسی نام پر اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں آئین کے مطابق معاملہ پارلمانی کمیٹی کو بھیجا جائے گا اور وہاں بھی عدم اتفاق کی صورت میں الیکشن کمیشن اس کا فیصلہ کرے گا۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان پہلے ہی حکومت کے نامزد کردہ ناموں کو مسترد کر چکے ہیں اور حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ترجمان مشاہد اللہ کا کہنا ہے کہ وہ اپنے تجویز کردہ ناموں میں تبدیلی نہیں کریں گے۔
مقامی ذرائع ابلاغ میں یہ قیاس آرائیاں ہورہی ہیں کہ پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تجویز کردہ عبوری وزیر علٰیٰ کے امیداوار کی تقرری پر اگر پیپلز پارٹی اتفاق کرتی ہے تو میاں نواز شریف کی جماعت وفاق میں حکومتی امیدوار کو تسلیم کرے گی۔ مگر قمر زمان کائرہ نے اس تاثر کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ’’سیاست میں کوئی لے دے نہیں یہ صرف پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نہیں بلکہ تمام سیاسی قوتوں کے فیصلے ہیں لیکن ہم سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔‘‘
پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ قومی اسمبلی کے پانچ سالہ مدت مکمل ہونے کے بعد انتخابات مئی میں متوقع ہے اور تمام اداروں نے اس کے بر وقت انعقاد کی بار ہا یقین دہانی کرائی ہے۔