رسائی کے لنکس

دہری شہریت سے متعلق بل پر حکومت کو مخالفت کا سامنا


پارلیمنٹ ہاؤس
پارلیمنٹ ہاؤس

چیئرمین سینیٹ نے بل مزید غور کے لیے پارلیمان کے ایوانِ بالا کی قائمہ کمیٹی برائے قانون، انصاف و پارلیمانی اُمور کو بھجوا دیا ہے۔

دہری شہریت کے مجوزہ ترمیمی بل پر حکمران پیپلز پارٹی کو اپنے اہم اتحادی اور حزب اختلاف کی طرف سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جب کہ نامزد چیف الیکشن کمشنر نے بھی اس پر تحفظات کا اظہار کر دیا ہے۔

قومی اسمبلی میں توہین عدالت سے متعلق متنازع قانون کی عجلت میں منظوری کے ایک روز بعد حکومت نے منگل کو سینیٹ میں 22 ویں آئینی ترمیم کا بل بھی پیش کر دیا ہے جس کا مقصد دہری شہریت کے حامل پاکستانیوں پر پارلیمان کا رکن منتخب ہونے کی پابندی کا خاتمہ ہے۔

چیئرمین سینیٹ نیئر حسین بخاری نے وزیرِ قانون فاروق نائیک کی طرف سے پیش کردہ بل مزید غور کے لیے پارلیمان کے ایوانِ بالا کی قائمہ کمیٹی برائے قانون، انصاف و پارلیمانی اُمور کو بھجوا دیا ہے۔

اس اقدام پر بعض اراکینِ سینیٹ کی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے فاروق نائیک نے کہا کہ ایسا قواعد و ضوابط کو مدِ نظر رکھ کر کیا گیا ہے۔

’’میرے ساتھی اس بل میں جو بھی ترامیم کرنا چاہیئں ... اور قائمہ کمیٹی میں جو بھی ترامیم (سامنے) آئیں گی اُن کو دیکھا جائے گا ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس بل کو منظور کرنے سے پہلے ممبران کے تمام تحفظات کو دور کرنا چاہیئے یہی جمہوریت کی روح ہے۔‘‘

اپوزیشن مسلم لیگ (ن) اور مخلوط حکومت میں شامل اتحادی جماعت عوامی نیشنل پارٹی ’’اے این پی‘‘ نے اس بل کی سخت مخالفت کرتے ہوئے اجلاس سے علامتی واک آوٹ کیا۔

اے این اپی کے سینیٹر حاجی عدیل کا موقف تھا کہ پاکستانی شہریت رکھنے والا امریکہ، مصر یا کسی اور ملک میں صدارتی الیکشن نہیں لڑ سکتا تو پھر پاکستان میں اس کی اجازت کیوں دی جائے۔

اُنھوں نے کہا کہ اہم حکومتی عہدوں پر صرف پاکستانی شہریت کے حامل افراد کی تقرری ہی ہونی چاہیئے۔


سینیٹر اعتزاز احسن
سینیٹر اعتزاز احسن
دلچسپ امر یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے سینیٹر میاں رضا ربانی اور سینیٹر اعتزاز احسن نے بھی مجوزہ ترمیمی بل میں امریکی شہریت کے حامل پاکستانیوں کو رکن پارلیمان بننے کی اجازت دینے پر تحفظات کا اظہار کیا۔

ان دونوں سنیئر سیاست دانوں کا کہنا تھا کہ امریکہ میں تو شہریت لیتے وقت حلف دینا پڑتا ہے کہ اگر کسی اور ملک کے خلاف ہتھیار بھی اٹھانے پڑے تو اس سے دریغ نہیں کیا جائے گا۔

اُدھر ملک کے نامزد چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراھیم نے بھی دہری شہریت سے متعلق پارلیمان کے اندر اور باہر جاری بحث پر اظہار خیال کرتے ہوئے کسی دوسرے ملک کی شہریت کےحامل پاکستانیوں کو انتخابات لڑنے کی اجازت دینے پر اپنے تحفظات کا اظہار کر دیا ہے۔

سپریم کورٹ کے احاطے میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ وہ ذاتی طور پر دہری شہریت کے خلاف ہیں۔

’’اگر مجھے پاکستان کا قانون ساز بننا ہے تو میرے پاس کیوں دوسرے ملک کی شہریت ہونی چاہیئے؟ اس کا مطلب ہے کہ مجھے اس ملک پر پورا بھروسا نہیں ہے میں آپشن بھی رکھتا ہوں کہ یہ چھوڑ کر چلا جاؤں گا (کیوں کہ) میرے پاس اور جگہ ہے۔‘‘

دہری شہریت کا معاملہ سپریم کورٹ میں بھی زیر سماعت ہے اور اب تک کئی اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں کی رکنیت معطل کی جا چکی ہے۔ ان میں سابق وزیر داخلہ رحمٰن ملک بھی شامل ہیں جنھوں نے منگل کو سینیٹ کی رکنیت سے باضاطبہ طور پر مستعفی ہونے کا اعلان بھی کر دیا۔

دریں اثنا توہین عدالت کے نئے قانون کی مخالفت کا سلسلہ جاری ہے اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایسے امتیازی قوانین آئین پاکستان کی روح کے منافی ہیں اور انھیں یقین ہے کہ سپریم کورٹ اسے منسوخ کر دے گی۔


عمران خان (فائل فوٹو)
عمران خان (فائل فوٹو)
’’دنیا میں کہیں بھی امتیازی قانون نہیں ہو سکتا۔ کسی ملک میں حکمرانوں اور عوام کے لیے (الگ الگ) قانون نہیں ہو سکتا، یہ جمہوریت اور انصاف کے نظام کے خلاف ہے۔ عدالت اس کو منسوخ کر دے گی میں یہ ابھی پیشگوئی کر رہا ہوں۔ جس طرح این آر او (قومی مصالحتی آرڈیننس) ایک مخصوص طبقے کے لیے تھا کہ انھوں نے ڈاکے مارے اور معاف کر دیا باقی غریب لوگ جیلوں میں ہیں۔‘‘

توہین عدالت کے نئے قانونی میں وفاقی وزرا اور دیگر عہدے دار بشمول وزیر اعظم اگر سرکاری فرائض کی انجام دہی کے دوران جو بھی فیصلے یا اقدامات کریں گے وہ توہین عدالت کے زمرے میں نہیں آئیں گے۔

غیر جانب دار ناقدین کا بھی ماننا ہے کہ اس قانون کا بنیادی مقصد وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کا تحفظ ہے کیونکہ صدر زرداری کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات کی بحالی کے لیے سوئس حکام کو خط لکھنے یا نا لکھنے کے بارے میں سپریم کورٹ نے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف سے بارہ جولائی کو وضاحت طلب کر رکھی ہے۔

سوئس حکام کو خط لکھنے سے انکار پر سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو عدالت عظمٰی نے نااہل قراردے دیا تھا۔
XS
SM
MD
LG