پاکستان کی ایک عدالت نے ملک کے سابق وزیراعظم اور حزب مخالف کی بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما یوسف رضا گیلانی کی آٹھ مقدمات میں حفاظتی ضمانت منظور کر لی ہے۔
گزشتہ ہفتے کراچی میں انسداد بدعنوانی کی ایک عدالت نے ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے جس پر منگل کو انھوں نے اسلام آباد کی عدالت عالیہ سے اپنی ضمانت کے لیے رجوع کیا۔
عدالت عالیہ نے ایک، ایک لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض سات روز کے لیے ان کی حفاظتی ضمانت منظور کر لی۔
عدالتی کارروائی کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ وہ مقدمات کا سامنا کرنے سے نہیں گھبراتے اور ملک کی عدالتوں میں پہلے کی طرح اب بھی پیش ہوں گے۔
لیکن انھوں نے حکومت پر براہ راست تنقید سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ وہ یہ بات جانتے ہیں کہ وفاقی تحقیقاتی ادارہ "ایف آئی اے" حکومت کی مرضی کے بغیر کوئی کام نہیں کرتا۔ ان کے بقول عدالتی کارروائی کے دوران ہی انھیں پتا چلا کہ ان کا نام ایک اور مقدمے میں شامل کر لیا گیا ہے۔
ان کا یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب ایک روز قبل ہی پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری نے حکمران مسلم لیگ (ن) کے خلاف انتہائی سخت زبان استعمال کرتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ وہ ان کی جماعت کے لوگوں کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے۔
حکومتی ترجمان سینیٹر پرویز رشید اس پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ حکومت سیاسی انتقام پر یقین نہیں رکھتی اور حالیہ دنوں میں پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی گرفتاریاں اور مقدمات قانون کے تحت قانون نافذ کرنے والے ادارے کر رہے ہیں۔
آصف زرداری کے بیان کے بعد یہ قیاس آرائیاں گردش کرنا شروع ہوگئیں کہ دونوں جماعتوں کے درمیان آٹھ سال قبل طے پانے والا "میثاق جمہوریت" اب ختم ہوتا دکھائی دیتا ہے اور ملک میں نوے کی دہائی کی سیاست دہرائے جانے کے امکانات واضح ہو رہے ہیں۔
لیکن یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا کہ سابق صدر نے یہ بیان دلبرداشتہ ہو کر دیا اور میثاق جمہوریت پر عملدرآمد اب حکومت کی طرف سے ہونا ہے نہ کہ ان کی طرف سے۔
"میثاق جمہوریت پر 85 فیصد عمل میں نے کیا اب جو 15 فیصد ہونا ہے تو اگر مسلم لیگ اس پر عمل کرنا چاہیے تو پیپلز پارٹی اس کے لیے تیار ہوگی۔"
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی پاکستانی سیاست کی دو روایتی حریف جماعتیں رہی ہیں لیکن اکتوبر 2007ء میں دونوں جماعتوں نے ملک میں جمہوریت کے استحکام کے لیے ایک مفاہمتی دستاویز پر دستخط کیے جسے میثاق جمہوریت کا نام دیا گیا۔
پیپلز پارٹی 2008ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں برسراقتدار آئی تھی۔ ملکی تاریخی میں پہلی بار پارلیمان نے اپنی آئینی مدت پوری کی اور 2013ء میں جمہوری طریقے سے انتقال اقتدار کا مرحلہ مکمل ہوا۔
ملک میں دہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمے کے علاوہ بدعنوانی کے خلاف بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیوں میں حالیہ مہینوں میں تیزی دیکھی گئی اور کراچی کی ایک بااثر جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف رینجرز کی کارروائیوں کے بعد اب پاکستان پیپلزپارٹی کے کئی اہم لوگوں کو بھی حراست میں لیا جا چکا ہے۔
گزشتہ ماہ ہی سابق صدر زرداری کے ایک معتمد اور سابق مشیر پٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین کو گرفتار کیا گیا تھا جو ان دنوں نوے روز کے ریمانڈ پر رینجرز کی تحویل میں ہیں۔
ادھر شائع شدہ اطلاعات کے مطابق منگل کو فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی وزیراعظم نواز شریف سے ہونے والی ملاقات میں کراچی میں آپریشن کو بغیر کسی دباؤ کے جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا جب کہ اطلاعات کے مطابق فوج نے وزیراعظم کو یہ بھی بتایا کہ پنجاب میں بھی کالعدم شدت تنظیموں کے خلاف کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔