مسلم لیگ ’’ہم خیال‘‘ گروپ کے رہنما پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) اور مسلم لیگ(ن) کے ساتھ سیاسی اتحاد کی شرائط طے کرنے کے لیے بات چیت کررہے ہیں لیکن ابھی تک کوئی نمایاں پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔
مسلم لیگ’’ہم خیال‘‘ گروپ بعض سابق وزرا اور اپنی سیاسی جماعتوں سے منحرف دو درجن سے زائد اراکین پارلیمان پر مشتمل ہے۔ لیکن ان کی اکثریت کا تعلق چودھری شجاعت حسین کی مسلم لیگ (ق) سے ہے۔ ہم خیال گروپ میں سابق وفاقی وزرا جہانگیر ترین، اسحاق خاکوانی، اور اویس لغاری بھی شامل ہیں۔
ان سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ق) کا حکمران پیپلز پارٹی سے اتحاد اپنی پرانی جماعت سے ان کی علیحدگی کی وجہ بنا ہے۔
’’ہم خیال‘‘ سیاسی دھڑے کے ایک سینیئر رہنما سابق وزیر تجارت ہمایوں اختر خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اُن کا دھڑا سیاسی اتحاد کا خواہاں مگر وہ کسی دوسری جماعت میں مدغم نہیں ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات بہت پہلے شروع کیے گئے تھے لیکن بعض وجوہات کی بنا پر یہ سلسلہ رُک گیا اور اب ایک بار پھر یہ بحال ہوگیاہے۔’’ لیکن ہم جن شرائط پر سیاسی اتحاد چاہتے ہیں ان پر مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں کافی پیش رفت ہوئی ہے۔‘‘
تحریک انصاف نے 30 اکتوبر کو لاہور میں ایک عوامی جلسے کا انعقاد کیا تھا جس میں کم از کم ایک لاکھ افراد نے شرکت کی جن میں اکثریت نوجوانوں اور خواتین کی تھی۔ اس جلسے کے بعد سیاسی مبصرین عمران خان کی جماعت کو حکمران پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے لیے آنے والے سالوں میں ایک خطرہ قرار دے رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی کے حامیوں کی اکثریت تعلیم یافتہ، تنخواہ دار اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ایسے افراد پر مشتمل ہے جو اب تک سیاسی سرگرمیوں سے لاتعلق اور پاکستان کی روایتی سیاسی جماعتوں سے نالاں رہے ہیں۔
ہمایوں اختر کا کہنا ہے کہ عمران خان نے مینار پاکستان پر بلاشبہ اپنی جماعت کی طاقت کا غیر معمولی مظاہرہ کیا ہے۔ لیکن ان کے بقول ملک کو درپیش مسائل انتہائی پیچیدہ ہیں اور پی ٹی آئی کے سربراہ خارجہ پالیسی سمیت اہم اُمورکا جو حل پیش کررہے ہیں وہ اُن کی سادہ لوحی پر دلالت کرتا ہے۔
’’پاکستان میں امریکہ مخالف سوچ موجود ہے اس پر عمران خان محض وہ کچھ کہہ رہے ہیں جو عوام سننا چاہتے ہیں۔‘‘
انھوں نے کہا کہ معیشت، ملک میں سلامتی کی صورت حال، افغانستان کا مسئلہ یا پھر خارجہ پالیسی یہ سب بہت پیچیدہ ایشوز ہیں لیکن تحریک انصاف کے چیئرمین کے خیال میں یہ مسائل بہت آسانی سے حل ہونے والے ہیں۔
’’مثلاً وہ کہتے ہیں کہ اگر لوٹی ہوئی دولت واپس آجائے اور سب اپنے اثاثے ظاہر کردیں تو ملک کی معیشت بہتر ہوجائے گی یا صرف طالبان سے بات کرنے سے یا چین کے ساتھ کھڑے ہونے سے سلامتی کا مسئلہ حل ہوجائےگا۔ ابھی اُن کی طرف سے کوئی ٹھوس خیالات نظر نہیں آئے ہیں۔‘‘
غیر جانبدار تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ عمران خان کی جماعت کی حمایت میں اضافہ ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کے لیے یقیناً ایک خطرے کی گھنٹی ہے لیکن آئندہ انتخابات میں حتمی نتائج پر اس کے کیا اثرات ہوں گےاس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
جمہوریت کے فروغ کے لیے کوشاں غیر سرکاری تنظیم ’پل ڈاٹ‘ کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف یقیناً ایک تیسری بڑی سیاسی قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آئے گی جو پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) دونوں کو چیلنج کرے گی۔
’’ اگر تحریک انصاف کچھ عرصہ اس طرح سے اپنی مقبولیت کو برقرار رکھتی ہے تو بتدریج تین چار انتخابات میں جا کے ہو سکتا ہے کہ ان دونوں جماعتوں میں سے کسی ایک کو پیچھے چھوڑ کر اُس کی جگہ لے لے اوردوسری بڑی سیاسی قوت بن جائے۔ لیکن فوری طور پر پاکستان کے سیاسی نظام میں اس کے امکانات کم ہوتے ہیں۔‘‘