وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے اُمید ظاہر کی ہے کہ پاکستان اور بھارت تمام تنازعات بشمول سیاچن کا مذاکراتی حل تلاش کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
اسلام آباد میں پیر کو قومی ترقی میں رفاہی اداروں کے کردار سے متعلق کانفرنس کے اختتام پر گفتگو کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ گیاری سیکٹر میں پیش آنے والے حالیہ سانحے کے بعد متنازع سیاچن گلیشیئر سے افواج کی واپسی پر دانشور حلقوں میں نیا مباحثہ شروع ہو گیا ہے۔
’’مجھے قوی یقین ہے کہ (پاکستان اور بھارت میں) مثبت سوچ رکھنے والوں کو کامیابی ہو گی اور ہم تمام متنازع اُمور کو مذاکرات کے ذریعے حل کریں گے کیوں کہ بات چیت ہی پیش رفت کا واحد راستہ ہے۔‘‘
گیاری سیکٹر میں 7 اپریل کو ضخیم برفانی تودہ گرنے سے چھ ناردرن لائٹ انفنٹری کے بٹالین ہیڈکوارٹرز میں تعینات پاکستانی فوجیوں اور ان کے سویلین معاونین پر مشتمل 140 رکنی عملہ منوں برف و پتھروں تلے دب گیا اور 17 روز کی مسلسل امدادی کوششوں کے باوجود کسی شخص کو نہیں نکالا جا سکا ہے۔
پاکستانی اور بھارتی حکام ان دنوں تنازع سیاچن پر بات چیت کے آئندہ دور کی تاریخ کا تعین کر رہے ہیں، جو پاکستان میں ہونا ہے۔
وزیرِ اعظم گیلانی نے پیر کو کہا کہ پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت نے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد بھارت سمیت تمام ہمسایہ ممالک سے دوستانہ تعلقات کے فروغ پر توجہ دی ہے اور ان ہی کوششوں کے نتیجے میں حالیہ برسوں میں اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان روابط میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
اُن کے اس بظاہر پُراعتماد خیالات کا پس منظر بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ مہینوں میں اقتصادی و تجارتی روابط میں غیر معمولی پیش رفت ہے۔
یہ سلسلہ گزشتہ سال پاکستان کی جانب سے بھارت کو تجارت کے لیے انتہائی مراعات یافتہ ملک یعنی ’ایم ایف این‘ کا درجہ دینے کے اعلان سے شروع ہوا، جس کے بعد بھارتی حکومت نے ملک میں براہ راست پاکستانی سرمایہ کاری کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا اور دوطرفہ تجارت کے فروغ کے لیے واہگہ اٹاری سرحد پر اضافی گزرگاہوں نے بھی کام شروع کر دیا ہے۔
مزید برآں صدر آصف علی زرداری نے 8 اپریل کو نئی دہلی کے اپنے دورے کے دوران وزیرِ اعظم منموہن سنگھ سے ملاقات میں اُنھیں پاکستان کے دورے کی دعوت دی جسے بھارتی رہنما نے قبول کر لیا۔
مبصرین کا خیال ہے کہ بھارت کے وزیرِ اعظم کی متوقع پاکستان آمد سے دوطرفہ سیاسی و تجارتی تعلقات کو بہتر کرنے کی کوششوں کو مزید تقویت ملے گی۔