وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ طاہرالقادری تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو اپنا منشور عوام کے پاس لے کر جائیں اور اقتدار میں آکر تبدیلی لائیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا ہے کہ سب کو احتجاج کا حق ہے۔ تاہم، اُن کے بقول، غیر قانونی اقدامات کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ وہ وقت گزر گیا جب، اُن کے الفاظ میں، ’کوئی غیر ملکی بریف کیس لے کر آتا تھا اور ملک کا وزیر اعظم بن جاتا تھا‘۔
قمر زمان کائرہ نے تحریک منہاج القرآن کی جانب سے پیش کئے گئے چارٹرڈ آف ڈیمانڈ کے ابتدائی تینوں مطالبات بھی تسلیم کرنے سے انکار کیا۔
ڈاکٹر قادری کے مطابق، اُن کا چارٹرڈ آف ڈیمانڈ سات نکاتی ہے ، جب تک وہ تسلیم نہیں کرلیا جاتا ،لانگ مارچ کے شرکا اسلام آباد میں دھرنا جاری رکھیں گے۔اِس حوالے سے وہ تین نکات لانگ مارچ شروع ہونے سے پہلے بتا چکے ہیں، جبکہ باقی چار نکات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ اسلام آباد پہنچ کر بتائیں گے۔
وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ اسلام آباد میں لانگ مارچ پر حکومتی موقف میڈیا کے سامنے لے آئے ہیں۔ انہوں نے طاہر القادری کی جانب سے پیش کیے گئے ابتدائی تینوں مطالبات کا تفصیل سے جواب دیا۔
تین مطالبات اور حکومت کا جواب
پہلامطالبہ تھا کہ الیکشن کمیشن کوتحلیل کرکے اس کی ازسرنو تشکیل کی جائے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ چیف الیکشن کمشنر دیانت دار انسان ہیں مگراپنی بزرگی کی وجہ سے اتنی بڑی ذمہ داری کے اہل نہیں ہیں۔
اس پر قمر زمان کائرہ کا کہنا تھاکہ الیکشن کمیشن اور الیکشن کمشنر کا طریقہ اٹھارویں ترمیم میں درج ہے۔ آرٹیکل 213 اور 214 میں الیکشن کمشنر کی تقرری اور اُنھیں ہٹانے کا طریقہ درج ہے۔،اس کے تحت چیف الیکشن کمشنر کو ایک جج کی طرح تعینات کیااور ہٹایا جاتا ہے۔ لہذا، اس پورے نظام کو معطل کرنا انتخابات کے التوا کی سازش ہو سکتی ہے۔
دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ دو جماعتوں کے’ مک مکا‘سے نگراں حکومت نہیں بننے دی جائے گی۔ چنانچہ، غیر جانبدار نگراں حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے۔اس پر قمرزمان کائرہ کا کہنا تھا کہ، ’ یہ دو جماعتوں کا مک مکا نہیں بلکہ آئین میں درج ہے کہ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر مل کر نگراں وزیراعظم منتخب کریں گے‘۔
قمرزمان کائرہ کے بقول، وزیراعظم حکومت میں شامل جماعتوں اور اپوزیشن لیڈر تمام اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لے کر فیصلہ کریں گے ۔ جب نگراں حکومت کے قیام کا وقت آئے گا تو پارلیمنٹ سے باہر تمام جماعتوں سے بھی مشاورت کی جائے گی۔ لہذا، اُن کے الفاظ میں، ’طاہر القادری اگر تحریک منہاج جو کہ سیاسی جماعت نہیں ، اپنی کسی سیاسی جماعت کو رجسٹرڈ کروا لیں تو ان سے بھی مشاورت ہو سکتی ہے‘۔
تیسرا مطالبہ یہ ہے کہ آئین کی شق 62 اور 63 اور218 کے مطابق انتخابات کا انعقا د کیا جائے ، یعنی جو نمائندے انتخابات میں حصہ لے سکیں وہ ایماندار اور دیانت دار ہوں ، اس کے علاوہ نتائج تسلیم نہیں کیے جائیں گے۔
اس پر، وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ آئین کی شق 62 اور 63 پر عملدرآمد سے کسی کو انکار نہیں۔ ’اِس کا طریقہ یہ ہے کہ جب کوئی بھی نمائندہ کاغذات نامزدگی جمع کرواتا ہے تو اُس کے کاغذاتِ نامزدگی الیکشن کمیشن میں چیلنج ہو سکتے ہیں اور اگر اس پر بدعنوانی ، قرض معاف کرانا یا کوئی اور الزام ثابت ہوجائے تو الیکشن کمیشن اسے نا اہل قرار دے سکتا ہے ، اس کے علاوہ عدالت میں بھی جایا جا سکتا ہے‘۔
قمر زمان کائرہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسلام آباد میں چارٹرڈ آف ڈیمانڈ کے باقی چار نکات سامنے آنے کے بعد وہ تفصیلی جواب دیں گے۔ تاہم، اُن کے بقول، یہ آئین بہت قربانیوں سے وجود میں آیا ہے۔ لہذا، اس کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے۔
انہوں نے کہا کہ وہ وقت گزر گیا جب، اُن کے الفاظ میں، ’کوئی غیر ملکی بریف کیس لے کر آتا تھا اور ملک کا وزیر اعظم بن جاتا تھا‘۔
قمر زمان کائرہ نے تحریک منہاج القرآن کی جانب سے پیش کئے گئے چارٹرڈ آف ڈیمانڈ کے ابتدائی تینوں مطالبات بھی تسلیم کرنے سے انکار کیا۔
ڈاکٹر قادری کے مطابق، اُن کا چارٹرڈ آف ڈیمانڈ سات نکاتی ہے ، جب تک وہ تسلیم نہیں کرلیا جاتا ،لانگ مارچ کے شرکا اسلام آباد میں دھرنا جاری رکھیں گے۔اِس حوالے سے وہ تین نکات لانگ مارچ شروع ہونے سے پہلے بتا چکے ہیں، جبکہ باقی چار نکات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ اسلام آباد پہنچ کر بتائیں گے۔
وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ اسلام آباد میں لانگ مارچ پر حکومتی موقف میڈیا کے سامنے لے آئے ہیں۔ انہوں نے طاہر القادری کی جانب سے پیش کیے گئے ابتدائی تینوں مطالبات کا تفصیل سے جواب دیا۔
تین مطالبات اور حکومت کا جواب
پہلامطالبہ تھا کہ الیکشن کمیشن کوتحلیل کرکے اس کی ازسرنو تشکیل کی جائے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ چیف الیکشن کمشنر دیانت دار انسان ہیں مگراپنی بزرگی کی وجہ سے اتنی بڑی ذمہ داری کے اہل نہیں ہیں۔
اس پر قمر زمان کائرہ کا کہنا تھاکہ الیکشن کمیشن اور الیکشن کمشنر کا طریقہ اٹھارویں ترمیم میں درج ہے۔ آرٹیکل 213 اور 214 میں الیکشن کمشنر کی تقرری اور اُنھیں ہٹانے کا طریقہ درج ہے۔،اس کے تحت چیف الیکشن کمشنر کو ایک جج کی طرح تعینات کیااور ہٹایا جاتا ہے۔ لہذا، اس پورے نظام کو معطل کرنا انتخابات کے التوا کی سازش ہو سکتی ہے۔
دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ دو جماعتوں کے’ مک مکا‘سے نگراں حکومت نہیں بننے دی جائے گی۔ چنانچہ، غیر جانبدار نگراں حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے۔اس پر قمرزمان کائرہ کا کہنا تھا کہ، ’ یہ دو جماعتوں کا مک مکا نہیں بلکہ آئین میں درج ہے کہ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر مل کر نگراں وزیراعظم منتخب کریں گے‘۔
قمرزمان کائرہ کے بقول، وزیراعظم حکومت میں شامل جماعتوں اور اپوزیشن لیڈر تمام اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لے کر فیصلہ کریں گے ۔ جب نگراں حکومت کے قیام کا وقت آئے گا تو پارلیمنٹ سے باہر تمام جماعتوں سے بھی مشاورت کی جائے گی۔ لہذا، اُن کے الفاظ میں، ’طاہر القادری اگر تحریک منہاج جو کہ سیاسی جماعت نہیں ، اپنی کسی سیاسی جماعت کو رجسٹرڈ کروا لیں تو ان سے بھی مشاورت ہو سکتی ہے‘۔
تیسرا مطالبہ یہ ہے کہ آئین کی شق 62 اور 63 اور218 کے مطابق انتخابات کا انعقا د کیا جائے ، یعنی جو نمائندے انتخابات میں حصہ لے سکیں وہ ایماندار اور دیانت دار ہوں ، اس کے علاوہ نتائج تسلیم نہیں کیے جائیں گے۔
اس پر، وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ آئین کی شق 62 اور 63 پر عملدرآمد سے کسی کو انکار نہیں۔ ’اِس کا طریقہ یہ ہے کہ جب کوئی بھی نمائندہ کاغذات نامزدگی جمع کرواتا ہے تو اُس کے کاغذاتِ نامزدگی الیکشن کمیشن میں چیلنج ہو سکتے ہیں اور اگر اس پر بدعنوانی ، قرض معاف کرانا یا کوئی اور الزام ثابت ہوجائے تو الیکشن کمیشن اسے نا اہل قرار دے سکتا ہے ، اس کے علاوہ عدالت میں بھی جایا جا سکتا ہے‘۔
قمر زمان کائرہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسلام آباد میں چارٹرڈ آف ڈیمانڈ کے باقی چار نکات سامنے آنے کے بعد وہ تفصیلی جواب دیں گے۔ تاہم، اُن کے بقول، یہ آئین بہت قربانیوں سے وجود میں آیا ہے۔ لہذا، اس کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے۔